بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
سلیمان(ا.س) نے عقلمندی کو چنا
توریت : 1 سلاطین 2:1-4؛ 3:1b-28
جب داؤد(ا.س) کا آخری وقت قریب آیا تو اُنہوں نے اپنے بیٹے سلیمان(ا.س) سے وصیت کری۔(1) داؤد(ا.س) نے کہا، ”میرے مرنے کا وقت قریب ہے۔ تم ایک اچھے رہنما بنو اور(2) الله تعالى کے ہر حکم کو مانو۔ اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو اور اُس کے قانون پر عمل کرنا۔ تم وہی کرنا جو وہ تم سے چاہتا ہے۔ تم موسیٰ(ا.س) کی کتاب پر عمل کرنا۔ اگر تم یہ سب کروگے تو تمکو ہر کام میں کامیابی ملےگی، چاہے تم جہاں بھی رہو۔(3) اگر تم اِن بتائی ہوئی باتوں پر عمل کروگے تو الله تعالى مجھ سے کئے وعدے کو ضرور نبھائے گا۔ اسنے وعدہ کیا ہے: ’تم انسے کہو کی میرے بتائے ہوئے طریقے سے زندگی گزاریں اور اُن کو میرے اوپر پکّا ایمان ہونا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ہمیشہ انکے ہی گھرانے سے ایک آدمی عبرانیوں کا بادشاہ بنےگا۔‘“(4)
3:1b-28
سلیمان(ا.س) اُس وقت اپنے لئے ایک محل اور بیتول-مُقدّس بنوا رہے تھے۔ وہ یروشلم کے چاروں طرف ایک اونچی دیوار بھی بنوا رہے تھے۔(1b) بیتول-مُقدّس کے بننے کا کام ابھی پورا نہیں ہوا تھا اِس لئے لوگ جانوروں کی قربانی دینے کے لئے دوسری جگہوں پر چبوترا بناتے تھے۔(2) بادشاہ سلیمان(ا.س) نے بھی الله تعالى کی مُحَبَّت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد کی کہی باتوں پر عمل کیا۔ وہ بھی اونچی جگہ پر جا کر قربانی پیش کرتے تھے اور خشبو جلاتے تھے۔(3)
بادشاہ سلیمان(ا.س) قربانی دینے کے لئے گیبون گئے۔ وہ وہاں اِس لئے گئے کیونکہ وہ عبادت کرنے کی سب سے خاص جگہ تھی۔ اُنہوں نے وہاں چبوترے پر ایک ہزار جانوروں کو ذبح کیا اور انکے بہنے گوشت کی قربانی پیش کری۔(4) جب وہ گیبون میں تھے تو الله تعالى نے اُنہیں ایک خواب میں بشارت دی۔ الله تعالى نے انسے کہا، ”مانگو جو مانگنا چاہتے ہو مَیں تمکو عطا کروں گا۔“(5) سلیمان(ا.س) نے جواب دیا، ”تونے میرے والد داؤد(ا.س) پر بہت مہربانی کری ہے۔ وہ تیرے ہر حکم پر عمل کرتے تھے۔ وہ بہت ایماندار تھے اور اُنہوں نے اپنی زندگی ہمیشہ نیک کاموں میں گزاری۔ تونے انکے بعد مجھے بادشاہ چن کر میرے والد کو بہت عزت بخشی ہے۔(6) یا الله رب العظیم، تونے مجھے میرے والد کے بعد بادشاہی دی لیکن، مَیں ابھی چھوٹے بچے کی طرح ہوں۔ مجھے اِتنی سمجھ نہیں ہے کی مَیں صحیح غلط کا فیصلہ کر پاؤں۔(7)
”مَیں تیرا غلام ہوں اور تیرے چنے ہوئے لوگوں میں سے ایک ہوں۔ یہ قوم اِتنی بڑی ہے کی اسکے لوگوں کو گنا بھی نہیں جا سکتا۔(8) اِس لئے تُو مجھے عقلمندی عطا کر تبھی مَیں صحیح طریقے سے اِن لوگوں پر حکومت کر پاؤں گا اور صحیح غلط کا فیصلہ کرنے کی سمجھ مجھے آئے گی۔ بنا عقلمندی کے، یہ ممکن نہیں کی مَیں اِتنی عظیم قوم پر حکومت کر پاؤں۔“(9)
الله تعالى کو بہت خوشی ہوئی کی سلیمان(ا.س) نے عقلمندی مانگی۔(10) الله تعالى نے انسے کہا، ”تم نے لمبی عمر کی خواہش نہیں کی، نہ ہی تم نے شہرت مانگی اور نہ ہی اپنے دشمنوں کی تباہی۔ کیونکہ تم نے صحیح فیصلہ لینے کے لئے عقلمندی مانگی ہے تو(11) مَیں تمکو وہ عطا کروں گا جو تم نے مانگا ہے۔ مَیں تمکو عقل اور سمجھ عطا کروں گا۔ تم اِتنے زیادہ عقلمند ہوگے کی جتنا ابھی تک نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہی آنے والے دور میں پیدا ہوگا۔(12)
”اور مَیں تمکو وہ بھی عطا کروں گا جو تم نے نہیں مانگا ہے۔ تمکو عزت اور شہرت ملےگی۔ تمہاری زندگی میں کوئی بھی بادشاہ تم سے زیادہ عظیم نہیں ہوگا۔(13) اگر تم میرے بتائے ہوئے حکم اور قانون سے اپنی زندگی گزارو گے جس طرح تمہارے والد نے گزاری ہے تو مَیں تمکو ایک لمبی عمر عطا کروں گا۔“(14)
سلیمان(ا.س) کی خواب سے جب آنکھ کھولی تو وہ سمجھ گئے کی الله تعالى نے انسے خواب میں بات کری ہے۔ تب وہ یروشلم میں عہد کے صندوق کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ سلیمان(ا.س) نے وہاں پر الله تعالى کو بہنے گوشت کی قربانی پیش کری اور بعد میں سارے رہنماؤں اور افسروں کو دعوت دی۔(15)
ایک دن دو طوائف سلیمان(ا.س) کے دربار میں آئیں۔(16) ان میں سے ایک عورت نے کہا، ”میرے مالک، ہم دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ یہ عورت میرے پاس موجود تھی جب میرے ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔(17) تین دنوں کے بعد اسکے بھی ایک بیٹا ہوا۔ اُس وقت گھر میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔(18) ایک رات اِس عورت نے اپنے بچے کی طرف کروٹ بدلی اور اُس پر چڑھ گئی جس وجہ سے اِس کا بچہ دب کر مر گیا۔(19) تو اُس رات جب مَیں سو رہی تھی تو اس نے میرے بیٹے کو میرے بستر سے اُٹھا لیا۔(20) صبح جب مَیں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے اٹھی تو مینے اُسے مرا دیکھا! جب مینے اسکو غور سے دیکھا تو وہ میرا بیٹا نہیں تھا۔“(21)
دوسری عورت نے کہا، ”نہیں! زندہ بچہ میرا بیٹا ہے اور مرا ہوا تمہارا ہے!“ لیکن پہلی عورت نے کہا، ”نہیں! زندہ بچہ میرا ہے اور مرا ہوا تمہارا!“ اور اِس طرح دونوں عورتیں انکے سامنے بحث کرنے لگیں۔(22)
سلیمان(ا.س) نے کہا، ”تم دونوں ہی زندہ بچے کو اپنا کہہ رہی ہو اور مرے ہوئے بچے کو دوسرے کا بتا رہی ہو۔“(23) تب سلیمان(ا.س) نے اپنے نوکر سے تلوار لانے کو کہا۔ جب وہ تلوار لے کر آیا،(24) تو اُنہوں نے کہا، ”زندہ بچے کو دو حصوں میں کاٹ دو اور دونوں عورتوں کو آدھا-آدھا دے دو۔“(25) بچے کی اصلی ماں کے دل میں اپنے بچے کے لئے اصلی پیار تھا۔ اسنے کہا، ”رحم میرے مالک، اُسے مت ماریے! یہ بچہ اُسی عورت کو دے دیجئے!“ لیکن دوسری عورت نے کہا، ”اِس بچے کو دو حصوں میں کاٹ دیجئے تاکی یہ ہم دونوں میں سے کسی کو بھی نہ ملے!“(26)
سلیمان(ا.س) نے کہا، ”بچے کو مارو نہیں اور اِسے پہلی عورت کو دے دو کیونکہ وہی اِس بچے کی اصلی ماں ہے۔“(27) جب عبرانیوں نے سلیمان(ا.س) کے فیصلے کو سنا تو وہ انکی بہت عزت کرنے لگے۔ اُنہوں نے دیکھا کی سلیمان(ا.س) کو الله تعالى نے عقلمندی بخشی ہے تاکی وہ صحیح فیصلے کر سکیں۔(28)