بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
نیک عمل
انجیل : یوحنا 13:1-20
وہ فسح کی عید کا موقع تھا۔ (یہ وہ عید تھی جس میں موسیٰ(ا.س) کے وقت میں ایک بھیڑ کی قربانی دی جاتی تھی۔ یہ قربانی اُن کو یاد دلاتی تھی کی جب مصر پر عذاب آیا تھا تو موت کا فرشتہ انکے گھروں کے اوپر سے نکل گیا تھا اور انکی پہلی اولادیں مرنے سے بچ گئیں تھی۔) عیسیٰ(ا.س) جانتے تھے کی وہ وقت قریب آ گیا ہے جب اُنہیں اِس دنیا کو چھوڑ کر الله رب العظیم کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ وہ ہمیشہ سے اُن لوگوں کو پیار کرتے تھے جو اِس دنیا میں انکے اپنے تھے، اور وہ اُن کو آخری وقت تک پیار کرتے رہیں گے۔(1) جبعیسیٰ(ا.س) اور انکے شاگرد شام کا کھانا کھانے ساتھ بیٹھے تو شیطان نے انکے ایک شاگرد کے دل میں اُنہیں دھوکہ دینے کی بات ڈال دی تھی۔ اُس شاگرد کا نام یہوداہ تھا، جو شمون اسکریوتی کا بیٹا تھا۔ عیسیٰ(ا.س) کو یہ بات پتا تھی کی الله تعالى نے سب انکے اختیار میں دے دیا ہے۔(2) وہیہ بھی جانتے تھے کی وہ الله تعالى کے پاس سے آئے ہیں اور اُن کو واپس اُسی کے پاس جانا ہے۔(3) عیسیٰ(ا.س) کھانے کے بیچ میں ہی اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اوپر کے کپڑے اُتار کر ایک طرف رکھ دیئے۔ اُنہوں نے ایک تولیے کو اپنی کمر پر لپیٹ کر باندھ لیا۔(4) تب اُنہوں نے ایک کٹورے میں پانی اُنڈیلا اور اپنے شاگردوں کے پیر دھونے لگے۔ اُنہوں نے انکے پیروں کو اپنی کمر پر بندھے ہوئے تولیے سے پوچھ کر سکھایا۔(5) عیسیٰ(ا.س) اُس شاگرد کے پاس آئے جسکا نام شمون پطرس تھا۔ اسنے عیسیٰ(ا.س) سے پوچھا، ”مالک، کیا آپ میرے پیر بھی دھونے جا رہے ہیں؟“(6)
عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”تم ابھی نہیں سمجھ پاؤگے جو مَیں کر رہا ہوں۔ لیکن تمکو یہ عمل بعد میں سمجھ آ جائےگا۔“(7) پطرس نے کہا، ”نہیں! آپ میرے پیر کبھی بھی نہیں دھویں گے۔“ عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”اگر مَیں تمہارے پیر نہیں دھوؤں گا تو تم میرے لوگوں میں سے نہیں ہوگے۔“(8) پطرس نے جواب دیا، ”حضور، جب آپ میرے پیر دھو چکیں، تو میرے ہاتھ اور سر کو بھی دھو دیجئے گا!“(9) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”نہانے کے بعد، انسان کا پورا جسم صاف ہو جاتا ہے اور صرف پیر دھونے کی ضرورت پڑتی ہے۔ تم لوگوں میں سے ہر کوئی صاف نہیں ہے۔“(10) عیسیٰ(ا.س) کو پتا تھا کی انکے ساتھ غداری کون کرےگا۔ اِس لئے عیسیٰ(ا.س) نے کہا تھا، ”تم لوگوں میں سے ہر کوئی صاف نہیں ہے۔“(11)
جب وہ اُن سبکے پیر دھو چکے، تو اپنے کپڑے پہن کر واپس بیٹھ گئے۔ عیسیٰ(ا.س) نے پوچھا، ”کیا تمہیں سمجھ میں آیا جو مینے ابھی تمہارے ساتھ کیا ہے؟(12) تم مجھے ’اُستاد‘ اور ’مالک‘ پکارتے ہو اور یہ بلکل صحیح ہے کیونکہ مَیں وہ ہی ہوں۔(13) مَیں، جو تمہارا مولا اور اُستاد ہوں، اسنے تمہارے پیر دھوئے ہیں۔ تو تم لوگ بھی ایک دوسرے کے پیر دھویا کرو۔(14) مینے یہ اِس لئے کیا تاکی تم میری بات کو سمجھو اور اِس پر عمل کرو۔(15) مَیں تمکو ایک سچائی بتاتا ہوں، ایک نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا اور ایک پیغام پہنچانے والا اسسے بڑا نہیں ہوتا جس نے اُسے بھیجا ہے۔(16) اگر تم یہ سب باتیں جانتے ہو، تو اِن پر عمل کرو اور تمکو برکت ملےگی۔(17)
”مَیں یہ بات تم سب لوگوں کے بارے میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ مَیں اپنے چنے ہوئے لوگوں کو جانتا ہوں۔ لیکن جو مُقدّس کتاب میں لکھا ہے وہ ہو کر ہی رہےگا: ’جس آدمی نے میرے ساتھ دسترخوان پر کھانا کھایا ہے، وہی میرے خلاف ہو جائےگا۔‘(18) مَیں تمکو یہ سب پہلے سے اِس لئے بتا رہا ہوں تاکی جب یہ سب ہو، تو تم سمجھ جاؤ کی مَیں وہی ہوں۔(19) مَیں تمکو ایک حقیقت بتاتا ہوں، جو کوئی بھی میرے بھیجے ہوئے پر ایمان لائےگا وہ مجھ پر ایمان لایا اور جو میرے اوپر ایمان لایا تو اُس پر بھی ایمان لایا جس نے مجھے بھیجا ہے۔“(20)