بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
عیسیٰ(ا.س) کی آخری دعوت
انجیل : متّا 26:20-46
شام کے وقت عیسیٰ(ا.س) اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔(20) جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”مَیں تمکو ایک حقیقت بتاتا ہوں۔ تم میں سے ایک انسان مجھے دھوکہ دےگا۔“(21) یہ سن کر اُنہیں بہت افسوس ہوا۔ ہر ایک نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”سچ میں، مالک، مَیں آپکو دھوکہ دینے والوں میں سے نہیں ہوں، کیا مَیں ہوں؟“(22) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”وہ آدمی جس نے میرے ساتھ اِس کٹورے میں روٹی ڈبو کر کھائی ہے، وہی میرے خلاف ہو جائےگا۔(23) آدمی کا بیٹا ویسے ہی مرےگا جیسا کی مُقدّس کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ لیکن اُس انسان کے لئے کتنی گھنونی بات ہے کی وہ آدمی کے بیٹے کو دھوکہ دےگا۔ اس سے اچھا اُس کے لئے یہ ہوتا کی وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔“(24)
تب یہوداہ، جو اُن کو دھوکہ دینے والا تھا، عیسیٰ(ا.س) سے بولا، ”اُستاد، سچ میں مَیں نہیں ہوں۔ کیا مَیں ہوں؟“ عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”تم نے کہہ دیا۔“(25) جب وہ لوگ کھانا کھا رہے تھے، عیسیٰ(ا.س) نے روٹی اُٹھا کر الله تعالى کا شکر ادا کیا اور اُس کو توڑا۔ اُنہوں نے وہ ٹکڑے اپنے شاگردوں کو دیئے اور کہا، ”اِس روٹی کو لو اور کھاؤ۔ یہ روٹی میرے جسم کی طرح ہے۔“(26)
تب عیسیٰ(ا.س) نے ایک پیالی کو لیا، اور الله تعالى کا شکر ادا کر کے اپنے شاگردوں کو دیا۔ اُنہوں نے کہا، ”تم میں سے ہر کوئی اسکو پیؤ۔(27) یہ میرے عہد[a] کے خون کے جیسا ہے۔ اسکو بہت سارے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے تاکی انکے گناہوں کو معاف کیا جا سکے۔(28) مَیں تم سے یہ کہتا ہوں: مَیں اسکو اُس دن تک نہیں پیوں گا کی جب تک مَیں تم لوگوں سے الله تعالى کی سلطنت میں دوبارہ مل نہیں جاتا۔“(29) اُن لوگوں نے الله تعالى کی شان میں قصیدہ پڑھا اور پھر وہ لوگ یروشلم کے اُس پہاڑ پر چلے گئے جسے زیتون کا پہاڑ کہتے تھے۔(30)
عیسیٰ(ا.س) نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”آج کی رات تم لوگ میری وجہ سے اپنا ایمان کھو دوگے۔ مُقدّس کتاب میں الله تعالى نے یہ فرمایا ہے، ’مَیں ایک چرواہے کا خون کروں گا، اور بھیڑیں ادھر-ادھر پھیل جائیں گی۔‘[b](31) لیکن جب مجھ کو زندہ کیا جائےگا، تو مَیں تم سے پہلے گلیل پہنچ جاؤں گا۔“(32)
انکے ایک شاگرد جناب پطرس نے کہا، ”ہو سکتا ہے کی آپ کے سارے ماننے والے آپکی وجہ سے ایمان کھو دیں، مگر مَیں کبھی بھی اپنا ایمان نہیں کھؤں گا۔“(33)
عیسیٰ(ا.س) نے اسسے کہا، ”مَیں تمکو سچ بتاتا ہوں۔ آج رات تم مجھے تین بار پہچاننے سے انکار کر دوگے اور بولو گے کی مجھے جانتے ہی نہیں۔ تم یہ بات مرغے کی بانگ دینے سے پہلے کہوگے۔“(34)
لیکن جناب پطرس نے کہا، ”مَیں یہ کبھی نہیں کہوں گا کی مَیں آپکو نہیں جانتا! یہاں تک کی مَیں آپ کے ساتھ مرنے کو بھی تیار ہوں!“ اور وہاں موجود سارے شاگردوں نے یہی بات دوہرائی۔(35)
تب عیسیٰ(ا.س) اپنے شاگردوں کے ساتھ گتسمنی نام کی جگہ پہنچے۔ اُنہوں نے شاگردوں سے کہا، ”یہاں بیٹھو تب تک مَیں اُس جگہ عبادت کر کے آتا ہوں۔“(36) اُنہوں نے جناب پطرس اور زبدی کے دو بیٹوں (جناب یعقوب اور جناب یوحنا) کو ساتھ آنے کے لئے کہا۔ عیسیٰ(ا.س) نے انسے اپنا غم اور پریشانی ظاہر کری۔(37) اُنہوں نے جناب پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں سے کہا، ”میرا دل افسوس سے بھر گیا ہے اور مَیں بہت غمگین ہوں۔ تم میرے ساتھ یہیں روکو اور رکھوالی کرو۔(38)
تب عیسیٰ(ا.س) اُن لوگوں کے پاس سے تھوڑا آگے چلے گئے۔ اُنہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور کہا، ”یا الله! پالن ہار! اگر یہ ممکن ہے تو مجھے یہ تکلیف نہ دے۔ لیکن تُو جو چاہتا ہے وہ کر، وہ نہ کر جو مَیں چاہتا ہوں۔“(39) تب عیسیٰ(ا.س) اپنے شاگردوں کے پاس واپس لوٹ کر آئے اور دیکھا کی وہ سو رہے ہیں۔ عیسیٰ(ا.س) نے پطرس سے کہا، ”تم میرے لئے ایک گھنٹہ جاگ بھی نہیں سکتے؟(40) جاگتے رہو اور اپنے نفس کی مضبوطی کے لئے دعا کرو۔ تمہاری روح وہی کرنا چاہتی ہے جو صحیح ہے، لیکن تمہارا جسم کمزور ہے۔“(41)
یہ کہہ کر عیسیٰ(ا.س) دوبارہ چلے گئے۔ اُنہوں نے عبادت کری اور کہا، ”یا الله، اے پالن ہار! اگر یہ ممکن نہیں کی تکلیف مجھ سے دُور ہٹے، اور اگر مجھے اِسے انجام دینا ہی ہے، تو مَیں دعا کرتا ہوں کی مَیں وہی کروں جو تُو چاہتا ہے۔“(42) تب عیسیٰ(ا.س) اپنے شاگردوں کے پاس واپس گئے اور اُن کو وہاں سوتا ہوا دیکھا۔(43) تو عیسیٰ(ا.س) اُن کو چھوڑ کر پھر سے عبادت کرنے چلے گئے۔ اِس بار جب اُنہوں نے دعا کری تو اُنہوں نے وہی دعا دوبارہ مانگی۔(44) تب عیسیٰ(ا.س) اپنے شاگردوں کے پاس گئے اور انسے کہا، ”تم ابھی بھی سو رہے ہو؟ بعد میں سونا! وہ وقت قریب آ گیا ہے کی جب آدمی کے بیٹے کو دھوکہ دے کر گناہ گاروں کے حوالے کیا جائےگا۔(45) اُٹھو، ہمیں چلنا چاہئے۔ وہ آدمی جس نے مجھے دھوکہ دیا ہے، ادھر ہی آ رہا ہے۔“(46)