بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
جناب ستیفنوس کی شہادت
انجیل : شاگردوں کے اعمال 6:7-15، 7:1-60
جناب ستیفنوس کی پیش
6:7-15
الله تعالى کا پیغام چاروں طرف پھیلتا رہا۔ یروشلم میں ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتی ہی رہی۔ بہت سارے یہودی امام بھی ایمان لا رہے تھے اور کلام پر عمل کرنے لگے تھے۔(7) اُن ایمان لانے والے لوگوں میں سے ایک کا نام جناب ستیفنوس تھا، جن کو الله تعالى نے بہت برکت عطا کری تھی۔ الله تعالى نے اُن کو [یروشلم کے] لوگوں کے بیچ کرشمے دکھانے کی طاقت دی تھی۔(8) کچھ یہودی لوگ انکے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے کچھ یہودی دوسرے ملکوں سے بھی تھے اور وہ سب مل کر جناب ستیفنوس سے بحث کرنے لگے۔(9) لیکن روح-القدوس انکی مدد کر رہی تھی تاکی وہ لوگوں کو عقلمندی سے جواب دے سکیں۔ وہ لوگ انسے بحث میں جیت نہیں پاتے تھے۔(10)
تو اُنہوں نے کچھ لوگوں کو رشوت دی اور انسے جھوٹ بلوایا، ”ہم نے جناب ستیفنوس کو الله تعالى اور موسیٰ(ا.س) کے خلاف کفر بکتے سنا ہے!“(11) اِس بات کو سن کر، یہودی بزرگوں اور مولویوں کو بہت غصہ آیا۔ وہ سب جناب ستیفنوس کو پکڑ کر یہودی رہنماؤں کے سامنے لے گئے۔(12) وہ کچھ لوگوں کو لائے تاکی وہ جناب ستیفنوس کے خلاف جھوٹ بول سکیں۔ اُنہوں نے کہا، ”یہ آدمی! ہمیشہ اِس پاک جگہ اور موسیٰ(ا.س) کے قانون کے بارے میں الٹی-سیدھی باتیں کرتا رہتا ہے۔(13) ہم نے اسکو کہتے سنا ہے کی ناظرۃ کے رہنے والے عیسیٰ(ا.س)،اِس پاک جگہ کو تباہ کر دیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کی عیسیٰ(ا.س) وہ طور-طریقہ بھی بدل دیں گے جو موسیٰ(ا.س) نے ہمیں سکھایا ہے۔“(14) اُس جگہ پر سب لوگ جناب ستیفنوس کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا چہرہ ایک فرشتے کی طرح چمک رہا تھا۔(15)
جناب ستیفنوس کی شہادت
7:1-60
سب سے بڑے امام نے جناب ستیفنوس سے پوچھا، ”کیا یہ باتیں سچ ہیں؟“(1)
جناب ستیفنوس نے جواب دیا، ”میرے بھائیوں اور بزرگوں، میری بات کو سنیے۔ الله ربل عزت، ابراہیم(ا.س) پر ظاہر ہوا جو ہمارے بزرگ ہیں۔ ابراہیم(ا.س) اُس وقت بیلاد آر-رافدین کی جگہ پر رہ رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ حاران نام کی جگہ پر تھے۔(2) الله تعالى نے ابراہیم(ا.س) سے کہا، ’اپنے رشتےداروں اور اپنا ملک چھوڑ کر اُس جگہ پر جاؤ جو مَیں تمکو دکھاؤں گا۔‘(3) تو ابراہیم(ا.س) کل داء نام کے ملک کو چھوڑ کر حاران میں رہنے لگے۔ جب ابراہیم(ا.س) کے والد کا انتقال ہو گیا تو الله تعالى نے اُنہیں اِس جگہ پر رہنے کے لئے بھیجا۔(4) الله تعالى نے ابراہیم(ا.س) کو اُس زمین کا تھوڑا سا بھی حصہ نہیں دیا تھا۔ لیکن ابراہیم(ا.س) کی اولاد ہونے سے پہلے الله تعالى نے اُن سے وعدہ کیا کی وہ یہ زمین انکی آنے والی نسلوں کو دےگا۔(5) الله تعالى نے انسے یہ بھی کہا؛ ’تمہاری نسلیں ایک جگہ پر اجنبی کی طرح رہیں گی۔ اُس ملک کے لوگ اُنہیں اپنا غلام بنا لیں گے اور وہ انکے ساتھ چار سو سال تک بہت بُرا سلوک کریں گے۔(6) لیکن آخر مَیں اُس ملک پر عذاب بھیجوں گا تبھی تمہاری قوم وہاں سے آزاد ہو پائے گی۔ وہ اِس جگہ پر میری عبادت کریں گے۔‘(7)
”الله تعالى نے ابراہیم(ا.س) سے ایک عہد کیا تھا؛ اور اُس عہد کی نشانی مردوں کی ختنہ تھی۔ تو جب ابراہیم(ا.س) کے بیٹے اسحاق(ا.س) پیدا ہوئے تو آٹھ دنوں کے بعد اُنہوں نے اُس کی ختنہ کی۔ یہ سلسلہ جاری رہا جب اسحاق(ا.س) کے بیٹے یعقوب(ا.س) پیدا ہوئے اور یعقوب(ا.س) کے بارہ بیٹے، جو ہمارے باپ-دادا ہیں۔(8)
”یہ بیٹے اپنے بھائی یوسف(ا.س) سے حسد کرنے لگے، جو ان کا سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ اُنہوں نے اسکو مصر میں غلامی کرنے کے لئے بیچ دیا، لیکن الله ربل کریم کی اُن پر نظر-اے-کرم تھی۔(9) یوسف(ا.س) کو وہاں پر بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن الله تعالى نے اُن کو انسے بچا لیا۔ مصر کا بادشاہ، فرعون، انکی بہت عزت کرتا تھا کیونکہ الله تعالى نے اُن کو عقلمندی عطا کری تھی۔ بادشاہ نے اُن کو پورے مصر کا گورنر بنا دیا اور اپنے پورے گھر کی ذمہ داری دی۔(10)
”تب مصر اور کننان میں سکھا پڑا اور زمین اِتنی سوکھ گئی کی اُس پر کچھ بھی اوگایا نہیں جا سکتا تھا۔ لوگ بہت مشکل میں پڑ گئے، ہمارے باپ-دادا کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔(11) لیکن جب یعقوب(ا.س) کو پتا چلا کی مصر میں گیہوں ہے تو اُنہوں نے اپنے بیٹوں کو وہاں گیہوں لینے پہلی بار بھیجا۔(12) بعد میں وہ وہاں دوبارہ گئے اور اِس بار، یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں کو بتا دیا کی وہ کون ہے۔ بادشاہ کو بھی انکے گھر والوں کے بارے میں پتا چل گیا۔(13) یوسف(ا.س) نے کچھ لوگوں کو بھیج کر اپنے والد، یعقوب(ا.س) اور اپنے رشتےداروں کو مصر میں بلوایا۔ (سب لوگ ملا کر پچھتر تھے)۔(14) تو یعقوب(ا.س) مصر گئے جہاں پر انکے خاندان والوں نے زندگی گزاری تھی۔(15) انکے انتقال کے بعد اُن کو شکیمہ نام کی جگہ پر دفنایا گیا۔ یہ وہی قبرستان تھا جو ابراہیم(ا.س) نے ہمور کے بیٹے سے کچھ پیسوں میں خریدا تھا۔ (اور یہیں ابراہیم(ا.س) بھی دفن تھے)۔(16)
”یعقوب(ا.س) کے گھر والے مصر میں خوب پھلے-پھولے۔ وہاں پر ہمارے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔ وہ وعدہ جو الله تعالى نے ابراہیم(ا.س) سے کیا تھا وہ ابھی پورا ہونا تھا۔(17) تب مصر کی گدی پر ایک نیا بادشاہ حکومت کے لئے بیٹھا جو یوسف(ا.س) کو نہیں جانتا تھا۔(18) اِس بادشاہ نے ہمارے لوگوں کے ساتھ دھوکے بازی کری اور ہمارے باپ-دادا پر بہت ظلم کرے۔ اسنے ہمارے بچوں کو قتل کر دیا۔(19) یہ وہ وقت تھا کی جب موسیٰ(ا.س) کی پَیدایش ہوئی۔ وہ بہت ہی اچھے تھے۔(20) تین مہینے تک انکی دیکھ بھال انکے والد کے گھر میں ہی ہوئی۔ لیکن جب اُن کو باہر چھوڑ دیا گیا تو بادشاہ کی بیٹی نے اُن کو اُٹھا لیا۔ اسنے اُنہیں اپنے بیٹے کی طرح پالا-پوسا۔(21) مصریوں نے موسیٰ(ا.س) کو تعلیم دی۔ وہ اپنے کلام اور کام دونوں میں ہی بہت بہترین تھے۔(22)
”جب موسیٰ(ا.س) چالیس سال کے ہوئے، تو اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھائی یعقوب(ا.س) کی اولادیں تھیں۔(23) موسیٰ(ا.س) نے دیکھا کی ایک مصری آدمی ایک یہودی آدمی کو پریشان کر رہا ہے۔ اُنہوں نے یہودی آدمی کو بچایا اور مصری آدمی کو سزا دی۔ موسیٰ(ا.س) نے اُس آدمی کو مارا اور وہ مر گیا۔(24) اُن کو لگا کی ان کا یہودی بھائی یہ سمجھ جائےگا کی الله تعالى انکے ذریعے عبرانیوں کی مدد کر رہا ہے، لیکن وہ لوگ یہ بات نہیں سمجھے۔(25) اگلے دن، موسیٰ(ا.س) نے دیکھا کی دو عبرانی بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اُنہوں نے اُن دونوں کے بیچ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کری۔ اُنہوں نے کہا، ’لوگوں، تم آپس میں بھائی ہو پھر بھی ایک دوسرے کو چوٹ کیوں پہنچا رہے ہو؟‘(26) ان میں سے جو آدمی بد تمیزی کر رہا تھا اُس نے موسیٰ(ا.س) کو ایک طرف دھکیل دیا اور کہنے لگا، ’تمکو ہمارا خلیفہ کس نے بنایا؟(27) کیا تم مجھے بھی اُس طرح سے قتل کر دوگے کی جس طرح سے کل تم نے اُس مصری آدمی کو قتل کر دیا تھا؟‘(28) جب موسیٰ(ا.س) نے اُسے یہ کہتے سنا تو وہ مصر چھوڑ کر مدیاں میں رہنے چلے گئے جہاں پر وہ ایک اجنبی تھے۔ مدیاں میں ہی موسیٰ(ا.س) کے دو بیٹے ہوئے۔(29)
”چالیس سال گزرے اور ایک دن موسیٰ(ا.س) ریگستان میں سینا' کے پہاڑ کے پاس پہنچے۔ ایک فرشتہ انکے سامنے ایک کانٹ دار جھاڑی پر آگ کی طرح ظاہر ہوا۔(30) جب موسیٰ(ا.س) نے اِسے دیکھا، تو بہت حیران ہوئے۔ وہ اُس کے پاس گئے تاکی وہ اُسے قریب سے دیکھ سکیں۔ تب موسیٰ(ا.س) نے الله تعالى کی آواز کو سنا۔(31) الله رب العالمین نے انسے کہا، ’مَیں تمہارا رب ہوں جس پر تمہارے باپ-دادا ایمان رکھتے تھے۔ مَیں وہ رب ہوں کی جس پر، ابراہیم، اسحاق، اور یعقوب ایمان رکھتے تھے۔‘ موسیٰ(ا.س) کانپنے لگے اور اُس طرف دیکھنے سے گھبرانے لگے۔(32) الله تعالى نے انسے کہا، ’اپنی چپلیں اُتار دو کیونکہ تم ایک پاک جگہ پر کھڑے ہو۔ مَیں اپنے لوگوں پر مصر میں ہوئی مصیبتوں کو دیکھ رہا ہوں۔(33) مینے انکی فریاد کو سنا ہے اور مَیں اُن کو بچاؤں گا۔ اے موسیٰ،مَیں تمہیں انکی مدد کے لئے مصر واپس بھیج رہا ہوں۔‘(34)
”موسیٰ(ا.س) وہی آدمی تھے کی جن کو ہمارے باپ-دادا پسند نہیں کرتے تھے اور انسے کہتے تھے، ’تمکو ہمارا خلیفہ کس نے بنایا؟‘ لیکن الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) کو ہمارے بزرگوں کے لئے مددگار اور خلیفہ دونوں بنا کر بھیجا۔ موسیٰ(ا.س) کی مدد اُس فرشتے نے کری جس کو اُنہوں نے اُس جلتی ہوئی جھاڑی میں دیکھا تھا۔(35) موسیٰ(ا.س) لوگوں کو مصر سے باہر نکال لائے۔ اُنہوں نے مصر میں، بحر-اے-قلزم میں اور چالیس سالوں تک ریگستان میں الله تعالى کی نشانیاں اور کرشمے دکھائے۔(36) موسیٰ(ا.س) وہی انسان تھے جنہوںے ہمارے بزرگوں سے کہا تھا: ’الله تعالى تمکو میرے جیسا ایک نبی دےگا؛ وہ تمہارے لوگوں میں سے ہی ہوگا۔‘(37)
”موسیٰ(ا.س) وہی تھے جو لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ ریگستان میں موجود تھے۔ وہ ہمارے باپ-دادا کے ساتھ تھے۔ فرشتے نے انسے سینا' پہاڑ پر بات کری۔ اُنہیں الله تعالى سے زندگی دینے والے حکم ملے اور اُنہوں نے وہ ہمیں بتائے۔(38) لیکن ہمارے بزرگوں نے اُن قانونوں کو ٹھکرا دیا کیونکہ وہ موسیٰ(ا.س) کا کہنا نہیں ماننا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کی واپس مصر چلے جائیں۔(39) اُنہوں نے ہارون(ا.س) سے کہا ’بھائی ہارون(ا.س)، ہم کو موسیٰ(ا.س) مصر سے نکال لایا ہے اور اب پتا نہیں کی اُس کے ساتھ کیا ہوا۔ اِس لئے ہمارے لئے ایک خدا بناؤ جو ہمیں راستا دکھا سکے۔‘(40) تو اُن لوگوں نے گائے کی شکل کا ایک بُت بنایا اسکو قربانی پیش کری اور اُس پر بہت فخر کیا۔(41) الله تعالى انکی اِس حرکت سے ناراض ہو گیا اور اُن کو بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اُن لوگوں نے سورج، چاند، اور تارو کی عبادت کرنا شروع کر دی۔
”توریت شریف میں یہ لکھا ہوا ہے: الله ربل کریم نے کہا، ’اے یعقوب کی قوم کے لوگوں، ریگستان میں چالیس سال کے سفر میں وہ قربانیاں تم نے مجھے پیش نہیں کریں!(42) تم اپنے ساتھ ایک تابوت اُٹھائے پھرے جس میں تم مولیک نام کے ایک جھوٹے خدا کا بُت رکھتے تھے اور اُس کی عبادت کرتے تھے، اِس کی سزا یہ ہے کی مَیں تمکو بابل سے اور دُور بھٹکا دوں گا۔‘[a](43)
”وہ پاک صندوق ریگستان میں ہمارے بزرگوں کے پاس تھا جس میں الله تعالى سے ملی ہوئی قانون والی دو سلیٹیں رکھی تھیں۔ الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) کو اسکو بنانے کا طریقہ بتایا تھا اور اُنہوں نے اُسے ویسا ہی بنایا۔(44) بعد میں، ہمارے بزرگ اِس صندوق کو لے کر جناب یوشوا(ا.س) کے ساتھ اُس پاک زمین پر گئے۔ الله تعالى نے اُس ملک سے لوگوں کو نکال دیا تاکی ہمارے بزرگ وہاں رہ سکیں۔ یہ صندوق ہمارے بزرگوں کو وراثت میں انکے باپ-دادا سے ملا تھا جس کو اُنہوں نے داؤد(ا.س) کے دور تک اپنے پاس رکھا۔(45) الله تعالى داؤد(ا.س) سے بہت خوش تھا، اُنہوں نے الله تعالى، یعقوب(ا.س) کے رب سے اظہار کیا کی وہ اُس کے لئے ایک گھر بنانا چاہتے ہیں۔(46) لیکن داؤد(ا.س) کے بیٹے سلیمان(ا.س) نے عبادت گاہ کو بنوایا۔(47)
”لیکن الله تعالى انسان کے ہاتھوں سے بنی عبادت گاہ میں نہیں رہتا ہے۔ پیغمبر یشعیاہ(ا.س) نے یہ کہا تھا: ’الله ربل کریم کہتا ہے:(48) آسمان میرا تخت ہے، زمین میرے تخت کے پائے۔ تمکو لگتا ہے کی تم میرے لئے ایک گھر بنا سکتے ہو؟ الله ربل کریم نے کہا: ایسا کوئی وقت نہیں ہے کی جب مجھے آرام کرنے کی ضرورت ہو۔(49) یاد رکھنا کی اِن سب چیزوں کا بنانے والا مَیں ہی ہوں!‘“[b](50)
[جناب ستیفنوس نے پھر کہا،] ”تم ضدی لوگ! کیا الله تعالى کو تم اپنے پورے دل سے نہیں چاہتے ہو! پھر تم اُس کی بات کو کیوں نہیں سنتے ہو! تم ہمیشہ سے اُس بات کے خلاف ہو جس کی الله تعالى تمکو ہدایت دیتا ہے۔ تمہارے بزرگ بھی بلکل ایسے ہی تھے اور تم لوگ بلکل انہیں کی طرح ہو!(51) کیا کوئی ایسا نبی ہے کی جسکا قتل تمہارے باپ-دادا نے نہ کیا ہو؟[c] اُنہوں نے اُن نبیوں کو بھی قتل کر دیا جنہوںے ایک ایمان والے کے آنے کی پیشن گوئی کری تھی، اور اب تم نے اُن کو بھی دھوکہ دے کر قتل کر دیا۔(52)
”تمکو موسیٰ(ا.س) کے قانون ملے، جو الله تعالى کے ایک فرشتے نے اُنہیں دیئے تھے، لیکن تم اُن پر عمل نہیں کرتے ہو!“(53) جب رہنماؤں نے جناب ستیفنوس کو یہ سب کہتے سنا تو وہ سب غصے سے بوکھلا اُٹھے اور اپنے دانت پیسنے لگے،(54) لیکن جناب ستیفنوس الله تعالى کے نور سے روشن تھے۔ اُنہوں نے آسمان میں اوپر دیکھا تو جنت کے دروازے کھل گئے۔ وہاں اُنہیں عیسیٰ(ا.س) الله تعالى کی عطا کی ہوئی قدرت کے ساتھ کھڑے دیکھے!(55) جناب ستیفنوس نے لوگوں سے کہا، ”دیکھو! مَیں دیکھ رہا ہوں کی جنت میں انسان کا بیٹا الله تعالى کی بادشاہت میں ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا ہے۔“(56)
یہ سن کر وہاں موجود سبھی لوگ زور-زور سے چیخنے-چلّانے لگے۔ اُن سبھی لوگوں نے اپنے کانوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کر لیا اور جناب ستیفنوس کی طرف لپکے۔(57) وہ لوگ اُن کو شہر سے باہر کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور پتھر مار-مار کر انکی جان لے لی۔ جن لوگوں نے جناب ستیفنوس کے خلاف [پیسے لے کر] جھوٹی گواہی دی تھی وہ اپنے کوٹ اُتار کر شاول[d]نام کے ایک نوجوان کے پیروں میں چھوڑ کر چلے گئے۔(58) جب لوگ انکی طرف پتھر پھینک رہے تھے تو اُنہوں نے دعا کری، ”عیسیٰ(ا.س) میرے مسیحا، میری روح کو قبول کریں!“(59) وہ اپنے گھٹنوں پر زمین پر گرے اور ایک تیز آواز میں چیخ کر بولے، ”یا الله رب العظیم، اِن لوگوں کے اِس گناه کو معاف کر دے!“ اور یہ سب کہنے کے بعد جناب ستیفنوس کی روح پرواز کر گئی۔(60)