بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
زندہ پانی
انجیل : یوحنا 4:5-42
عیسیٰ(ا.س) سمیرہ میں سوخار نام کے ایک قصبے میں پہنچے۔ یہ قصبہ اُس زمین کے قریب تھا جو یعقوب(ا.س) نے اپنے بیٹے یوسف(ا.س) کو دی تھی۔(5) اُس زمین پر یعقوب(ا.س) کا کوان بھی تھا۔ عیسیٰ(ا.س) اپنے سفر کی تھکان مٹانے کے لئے اُس کنویں پر جا کر بیٹھ گئے۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔(6) اُس کنویں پر ایک سامری[a] عورت پانی بھرنے آئی۔ عیسیٰ(ا.س) نے اسسے کہا، ”آپ مجھے تھوڑا پانی دیجئے۔“(7) یہ اُس وقت ہوا جب عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد شہر سے کھانا خریدنے گئے ہوئے تھے۔(8)
اُس عورت نے جواب دیا، ”مَیں اِس بات پر حیران ہوں کی آپ نے مجھ سے پینے کے لئے پانی مانگا۔ آپ ایک یہودی ہیں اور مَیں ایک سامری۔“ (کیونکہ یہودی سامریوں کی چیزیں ناپاک سمجھتے ہیں۔)(9) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”اگر تمہیں الله تعالى کے تُحْفَے کا علم ہوتا اور اگر تم نے یہ پہچان لیا ہوتا کی تم سے پینے کے لئے پانی کون مانگ رہا ہے اور اگر تم جان جاتی تو پھر مجھ سے پانی مانگتی، اور مَیں تمکو زندہ پانی دیتا۔“(10)
اُس عورت نے عیسیٰ(ا.س) سے پوچھا، ”جناب، آپ مجھے زندہ پانی کیسے دے سکتے ہیں؟ یہ کوان بہت گہرا ہے اور آپ کے پاس کنویں سے پانی نکالنے کا کوئی برتن بھی نہیں ہے۔(11) کیا آپ ہمارے بزرگ یعقوب(ا.س) سے بھی زیادہ عظیم ہیں؟ وہ اِس کنویں سے پانی پیتے تھے اور انکے بیٹے اور انکے مویشی بھی۔“(12) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”جو کوئی بھی اِس کنویں سے پانی پئےگا وہ پھر سے پیاسا ہو جائےگا۔(13) لیکن جو کوئی بھی میرا دیا ہوا پانی پئےگا تو اسکو کبھی بھی پیاس نہیں لگےگی۔ جو پانی مَیں دوں گا وہ اُس کے اندر جا کر ایک جھرنا بن جائےگا اور اسکو کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ملےگی۔“(14)
اُس عورت نے انسے کہا، ”جناب، مجھے آپ یہ پانی دیجئے تاکی مجھے پھر سے پیاس نہ لگے اور مجھے بار-بار یہاں پانی لینے نہ آنا پڑے۔“(15) عیسیٰ(ا.س) نے اُس عورت سے کہا، ”تم جا کر اپنے شوہر کو لے آؤ۔“(16) اُس عورت نے جواب دیا، ”میرا کوئی شوہر نہیں ہے۔“ عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”تم سچ کہہ رہی ہو کی تمہارا کوئی شوہر نہیں ہے۔(17) اصلیت میں تمہارے پانچ شوہر تھے۔ لیکن ابھی تم جس آدمی کے ساتھ رہ رہی ہو وہ تمہارا شوہر نہیں ہے۔ تم سچ بول رہی ہو۔“(18) اُس عورت نے انسے کہا، ”جناب، سمجھ رہی ہوں کی آپ تو نبی ہیں۔(19) میرے باپ-دادا اِس پہاڑ پر الله تعالى کی عبادت کرتے تھے، لیکن یہودی لوگ کہتے ہیں کی یروشلم ہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ صحیح سے الله تعالى کی عبادت کر سکتے ہیں۔“(20) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”یقین مانو، وہ وقت قریب ہے جب تمکو یروشلم یا اِس پہاڑ پر جا کر الله تعالى کی عبادت نہیں کرنی پڑے گی۔(21) تم سب اُس کی عبادت کرتے ہو جس کو تم سمجھتے ہی نہیں ہو۔ ہم لوگ اُس کی عبادت کرتے ہیں جس کو ہم سمجھتے ہیں کی ہم کس کی عبادت کر رہے ہیں، کیونکہ نجات تو یہودیوں کی نسلوں[b] سے ہی آ رہی ہے۔(22) وہ وقت بہت قریب ہے، اور شروع بھی ہو چکا ہے جب پکّے ایمان والے لوگ الله تعالى کی سچی اور روحانی عبادت کریں گے۔ ہمارا رب ایسے ہی بندوں کو پسند کرتا ہے۔(23) الله تعالى ایک نور ہے، اِس لئے جو لوگ اُس کی عبادت کرتے ہیں اُن کو سچی اور روحانی عبادت کرنی چاہئے۔“(24) اُس عورت نے کہا، ”مَیں جانتی ہوں کی مسیحا آنے والا ہے۔ جب وہ آئےگا تو وہ ہمیں ہر چیز کو صحیح سے بتائےگا۔“(25) تب عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”وہ وہی ہے جو تم سے ابھی بات کر رہا ہے، مَیں ہی وہ ہوں۔“(26)
اُسی وقت عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد بھی بازار سے لوٹ آئے۔ وہ سب بہت حیران ہوئے کیونکہ عیسیٰ(ا.س) اُس عورت سے بات کر رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی انسے نہیں پوچھا، ”آپکو کس چیز کی ضرورت ہے؟“ یا، ”آپ اُس عورت سے بات کیوں کر رہے ہیں؟“(27) وہ عورت اپنا پانی کا برتن چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلی گئی۔ اور ہر ایک کو یہ بات بتانے لگی،(28) ”سنو! ایک آدمی نے مجھے وہ سب بتا دیا جو مینے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ آؤ اسسے ملنے چلیں۔ ہو سکتا ہے کی وہ مسیحا ہو، الله تعالى کا چنا ہوا نمائندہ!“(29) تو سب لوگ اپنے گھروں سے نکل کر عیسیٰ(ا.س) کو دیکھنے چل پڑے۔(30)
اُس عورت کے وہاں سے چلے جانے کے بعد، عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد انسے گزارش کر رہے تھے، ”اُستاد، کچھ کھا لیجئے!“(31) لیکن عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”تم لوگ میرے لئے پریشان مت ہو۔ میرے پاس کھانے کی وہ چیز ہے جس کے بارے میں تمہیں پتا نہیں ہے۔“(32) تب شاگردوں نے ایک-دوسرے سے پوچھا، ”کیا کسی نے اِنہیں پہلے سے ہی کچھ کھانے کو دے دیا؟“(33) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”میرا کھانا وہ ہے جس کے لئے مجھے اِس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ میرا کھانا ہے اُس کام کو پورا کرنا جو میرے رب نے مجھے دیا ہے۔(34) تم کہوگے، ’فصل کاٹنے میں ابھی چار مہینے کا وقت بچا ہے،‘ لیکن مَیں تم سے کہوں گا، ’اپنی آنکھیں کھولو! اور کھیتوں کو دھیان سے دیکھو!‘ فصل کٹنے کے لئے پہلے سے ہی تیار ہو چکی ہے۔(35) اب جو اِس فصل کو کاٹ رہا ہے اسکو اِس کی مزدوری مل رہی ہے۔ وہ فصل کو جنت کے لئے جمع کر رہا ہے۔ اب نہ صرف وہ خوش ہے جس نے بیج بوئے تھے، بلکہ وہ بھی خوش ہے جس نے فصل کو کاٹا ہے۔(36) یہ سچ ہے جب ہم کہتے ہیں، ’ایک آدمی بوتا ہے، اور دوسرا اسکو کاٹتا ہے۔‘(37) مینے تمکو وہ فصل کاٹنے کے لئے بھیجا جس کو تم نے نہیں بویا تھا۔ دوسروں نے وہ کام کیا تھا، لیکن اب تم لوگوں کو اُسکا فائدہ ملےگا۔“(38)
اِسی بیچ، بہت سارے سامری لوگوں نے اُس عورت کی باتوں کو سنا اور عیسیٰ(ا.س) پر ایمان لے آئے۔ اُس عورت نے لوگوں کو بتایا، ”مجھے اُنہوں نے وہ ساری باتیں بتائیں جو مینے آج تک کری ہیں۔“(39) اِسی وجہ سے وہ سامری لوگ عیسیٰ(ا.س) کے پاس گئے اور انسے گزارش کری کی وہ انکے ساتھ رہیں۔ تو عیسیٰ(ا.س) اُن لوگوں کے پاس دو دنوں کے لئے رُک گئے۔(40) بہت سارے لوگ انکی خود کہی باتوں کو سن کر اُن پر ایمان لائے۔(41) اُنہوں نے اُس عورت سے کہا، ”پہلے ہم تمہاری بات سن کر عیسیٰ(ا.س) پر یقین کر رہے تھے۔ لیکن اب ہم اُن پر ایمان لائے ہیں کیونکہ ہم نے اُنہیں خود بولتے سنا ہے۔ اب ہم سمجھ گئے ہیں کی اصلیت میں یہی دنیا کو بچانے والے مسیحا ہیں۔“(42)