بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
یوسف(ا.س) کا مصر کا سفر
توریت : خلقت 37:1-11، 18، 21-36
یعقوب(ا.س) کننان کی زمین پر رہے، جس جگہ پر انکے والد [اسحاق(ا.س)] نے سفر کیا تھا۔(1) یہ یعقوب(ا.س) کے گھر والوں کی داستان ہے۔
[یعقوب(ا.س) کے بیٹے] یوسف(ا.س) ایک سترہ سال کے نوجوان تھے۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ بھیڑوں اور بکریوں کو چرایا کرتے تھے۔ یہ بھائی یعقوب(ا.س) کی بیویوں کے بیٹے تھے جن کا نام بلھا اور زلفا تھا۔ یوسف(ا.س) نے اپنے والد سے بھائیوں کی شکایت کری۔(2)
یوسف(ا.س) اُس وقت پیدا ہوئے جب انکے والد بہت بوڑھے تھے۔ اِسی وجہ سے انکے والد اُن کو باقی بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ [یعقوب(ا.س)][a] نے اُن کو ایک بہت لمبا اور خوبصورت کرتا دیا۔(3) جب یوسف(ا.س) کے بھائیوں نے اسکو دیکھا تو کہا، ”ہمارے والد یوسف سے زیادہ مُحَبَّت کرتے ہیں۔“ اِسی وجہ سے انکے بھائی انسے حسد کرنے لگے اور انسے صحیح سے بات کرنا چھوڑ دیا۔(4)
ایک بار یوسف(ا.س) نے ایک خواب دیکھا اور جب اُنہوں نے اِس خواب کو اپنے بھائیوں سے بتایا تو انکے بھائی انسے اور زیادہ نفرت کرنے لگے۔(5) یوسف(ا.س) نے خواب بتایا کی،(6) ”ہم سب کھیت میں کام کر رہے تھے اور ہم گیہوں کی فصل کے گٹھر باندھ رہے تھے۔ میرا گٹھر اُٹھ کھڑا ہوا اور تم سب کے گٹھروں نے اسکو گھیرے میں لے لیا اور اُس کے سامنے عزت سے جھکے۔“(7) انکے بھائیوں نے کہا، ”کیا تمکو لگتا ہے کی تم ہم پر حکومت کروگے۔“ یوسف(ا.س) کے بھائی انکے خواب کی وجہ سے انسے نفرت کرنے لگے۔(8)
یوسف(ا.س) کو ایک اور خواب دکھا اور اُنہوں نے اپنے بھائیوں کو اسکے بارے میں بتایا. اُنہوں نے کہا، ”مجھے ایک اور خواب دکھا، جس میں سورج، چاند، اور گیارہ ستارے تھے جو میرے سامنے سجدہ کر رہے تھے۔“(9) یوسف(ا.س) نے اپنے والد کو بھی یہ خواب سنایا تو انکے والد نے اُن کو ڈانٹا اور کہا، ”یہ کیسا خواب ہے؟ کیا تمکو لگتا ہے کی تمہاری ماں، تمہارے بھائی، اور مَیں تمہارے آگے سجدہ کریں گے؟“(10) اسکو سننے کے بعد انکے بھائی انسے اور بھی زیادہ نفرت کرنے لگے۔ انکے والد نے اِن خوابوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔(11)
ایک دنجب یوسف(ا.س) کے بھائیوں نے اُن کو دُور سے آتا دیکھا تو اُنہوں نے اُن کو قتل کرنے کا ارادہ بنا لیا۔(18)
اُن بھائیوں میں سے ایک بھائی، روبین، نے یوسف(ا.س) کو بچانے کے لئے کہا، ”ہم اسکو بنا نقصان پہنچائے ایک کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں۔“(21) روبینکا ارادہ تھا کے وہ، یوسف(ا.س) کو بچا کر والد کے پاس واپس لے جائے۔(22) تو جب یوسف(ا.س) انکے پاس پہنچے تو انکے بھائیوں نے انکے خوبصورت کپڑوں کو اُتار کر پھاڑ ڈالا۔(23) اور اُن کو ایک سوکھے کنوئیں میں دھکیل دیا۔(24)
اُن کو کنوئیں میں پھینکنے کے بعد انکے سارے بھائی ایک جگہ کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ انکے بھائیوں نے دیکھا کے ایک قافلہ انکی طرف آ رہا ہے جو انکے بزرگ اسمٰعیل(ا.س) کی سرزمین سے تھا۔ وہ تجارتی قافلہ جلعاد سے مصر کی طرف سفر کر رہا تھا۔ انکے اونٹوں پر بہت سارے مسالے اور قیمتی سامان لدا ہوا تھا۔(25)
تب یہوداہ نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”ہمیں اپنے بھائی کا قتل کر کے اور اِس کی لاش کو چھپا کر کیا حاصل ہوگا؟(26) ہم اِسے اِن قافلے والوں کو بیچ دیتے ہیں۔ اِس سے ہم لوگ اپنے بھائی کا خون کرنے کے گناه سے بچ جائیں گے۔ وہ ہمارا بھائی ہی ہے، ہمارے والد ایک ہی ہیں۔“ یہ بات سن کر سارے بھائی راضی ہو گئے۔(27) جب وہ تجارتی قافلہ پاس سے گزرا تو انکے بھائیوں نے یوسف(ا.س) کو کنوئیں سے باہر نکالا اور قافلے کو بیس چاندی کے سکوں میں بیچ دیا اور وہ لوگ اُنہیں مصر لے گئے۔(28)
اُس وقت روبین وہاں موجود نہیں تھا۔ جب روبین نے واپس آ کر دیکھا کی یوسف(ا.س) کنوئیں میں نہیں ہیں تو اسنے افسوس کا اظہار کرنے کے لئے اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔(29) پھر اسنے اپنے بھائیوں کے پاس واپس جا کر کہا، ”وہ کنوئیں میں نہیں ہے! اب مَیں کیا کروں؟“(30) انکے بھائیوں نے ایک بکرے کو مار کر اُسکا خون اُس کرتے پے لگایا اور(31) وہاُس کرتے کو اپنے والد کے پاس لے گئے اور بولے، ”ہمیں یہ کرتا ملا ہے، کیا یہ آپ کے بیٹے کا ہے؟“(32) جب انکے والد نے اسکو دیکھا تو اُسے پہچان لیا اور بولے، ”یہ میرے بیٹے کا ہی ہے! کسی جنگلی جانور نے اسکو قتل کر دیا ہے!“(33)
تب یعقوب(ا.س) نے اپنے غم کا اظہار کرنے کے لئے اپنے کپڑے پھاڑ کر پرانے کپڑے پہن لئے۔ وہ اپنے بیٹے کی یاد میں ایک لمبے عرصے تک روئے۔(34) یعقوب(ا.س) کے بچوں نے اُنہیں دلاسا دینے کی بہت کوشش کری لیکن، اُسکا اُن پر کوئی عصر نہیں ہوا۔ یعقوب(ا.س) نے کہا، ”مَیں اپنے بیٹے کے غم میں تب تک روؤں گا جب تک مَیں مر نہیں جاتا۔“ یعقوب(ا.س) اپنے بیٹے، یوسف(ا.س)، کے غم میں روتے رہے۔(35)
تجارتی لوگ یوسف(ا.س) کو مصر لے گئے اور وہاں اُنہیں ایک بڑے افسر کو بیچ دیا جو فرعون کے سپاہیوں کا کمانڈر تھا۔(36)