بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
جھوٹے الزام اور اُس کی سزا
انجیل : لوکاس 23:1-56
تب یہودی لیڈر کی پوری جماعت اُٹھ کھڑی ہوئی اور عیسیٰ(ا.س) کو پیلاطس کے پاس لے کر گئی۔(1) وہسب عیسیٰ(ا.س) پر الزام لگانے لگے۔ اُنہوں نے پیلاطس سے کہا، ”ہم نے اِس آدمی کو پکڑا ہے جو ہمارے لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔ یہ کہتا ہے کی ہمیں سیزر کو ٹیکس نہیں دینا چاہئے۔ یہ اپنے آپکو مسیحا کہتا ہے، جسکا مطلب ہے وہ آدمی جس کو بادشاہ چنا گیا ہے۔“(2) پیلاطس نے عیسیٰ(ا.س) سے پوچھا، ”کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“ عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”تم خود ہی یہ بات کہہ رہے ہو۔“(3)
پیلاطس نے اُس وقت کے یہودی امام سے اور بھیڑ سے کہا، ”میری نظر میں یہ آدمی بےقصور ہے۔“(4)
اُن لوگوں نے بار-بار یہی کہا، ”لیکن یہ لوگوں کو بھڑکا رہا ہے! یہ یہودیہ کے کسبوں میں لوگوں کو غلط تعلیم دے رہا تھا۔ اس نے گلیل سے شروعات کری تھی اور اب یہاں تک پہنچ گیا ہے!“(5) پیلاطس کو جب پتا چلا کی عیسیٰ(ا.س) گلیل سے ہیں،(6) تو پھر اسنے اُن کو ہیرودیس کے پاس فیصلے کے لئے بھیج دیا۔ (ہیرودیس انتپاس، گلیل کے بادشاہ کے طور پر، وہاں کے لوگوں کا فیصلہ کرتا تھا اور وہ اُس وقت یروشلم میں ہی موجود تھا۔)(7)
جب ہیرودیس نے عیسیٰ(ا.س) کو دیکھا، تو وہ بہت خوش ہوا۔ اسنے ان کے بارے میں بہت سنا تھا اور وہ انسے ملنے کے لئے بہت وقت سے بےقرار تھا۔ ہیرودیس عیسیٰ(ا.س) کے کرشمے دیکھنا چاہتا تھا۔(8) اُس نے عیسیٰ(ا.س) سے بہت سارے سوال کئے، لیکن اُنہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔(9) اُس وقت کے سب سے بڑے عالِم اور قانون کے اُستاد بھی وہاں کھڑے ہوئے تھے۔ وہ سب چیخ رہے تھے اور عیسیٰ(ا.س) کے خلاف بول رہے تھے۔(10)
ہیرودیس اور اُس کے افسروں نے عیسیٰ(ا.س) کا مذاق اُڑایا اور انکی بےعزتی کری۔ اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) کو بادشاہوں والے کپڑے پہنا کر واپس پیلاطس کے پاس بھیج دیا۔(11) پہلے پیلاطس اور ہیرودیس کے بیچ میں دشمنی تھی، لیکن اُس دن وہ دوست بن گئے۔(12) پیلاطس نے سب لوگوں کو ایک ساتھ بُلایا جن مے اُس وقت کے سب سے بڑے امام اور یہودی رہنما بھی موجود تھے۔(13) اسنے سب سے پوچھا، ”تم اِس آدمی کو میرے پاس لے کر آئے ہو اور کہہ رہے ہو کی یہ آدمی سب کو گمراہ کر رہا تھا۔ مینے تمہارے سامنے اِس آدمی سے پہلے بھی سوال پوچھے تھے، لیکن تمہارے الزام اِس آدمی پر ثابت نہیں ہوئے۔(14) ہیرودیس کو بھی یہ آدمی بےگناہ لگا اِس لئے اسنے بھی اِسے واپس میرے پاس بھیج دیا۔ دیکھو! اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے کی اِسے موت کی سزا دی جائے۔(15) تو اِس لئے اِسے مَیں سزا دینے کے بعد زندہ چھوڑ دوں گا۔“(16) (اُس وقت یہ رواج تھا کی فسح کی عید والے دن پیلاطس کو ایک مجرم رِہا کرنا پڑتا تھا۔)(17)
لیکن سارے لوگ ایک ساتھ چلائے، ”نہیں! اِس آدمی کو قید کرو اور برابّس کو چھوڑ دو!“(18) برابّسجیل میں قید ایک مجرم تھا۔ اسنے شہر میں فساد مچایا تھا اور ایک آدمی کو قتل بھی کیا تھا۔(19) پیلاطس چاہتا تھا کی عیسیٰ(ا.س) کو چھوڑ دیا جائے اور اسنے یہ بات وہاں موجود لوگوں سے کہی۔(20) لیکن وہ سب لوگ چیخ-چیخ کر کہنے لگے، ”اِسے مار دو! اِسے سولی پر چڑھا دو!“(21) پیلاطس نے انسے تیسری بار پوچھا، ”کیوں؟ اِس کا جرم کیا ہے؟ مجھے اسکو موت کی سزا دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اِس لئے مَیں اِسے تھوڑی سزا دے کر چھوڑ دوں گا۔“(22) لیکن وہ سب شور مچاتے رہے اور سب نے یہی مانگ کری کی عیسیٰ(ا.س) کو سولی پر چڑھا دیا جائے۔(23) اُن سب کی چیخ-پکار اِتنی تیز ہو گئی کی پیلاطس کو انکی بات ماننی پڑی۔(24) وہچاہتے تھے کی برابّس کو چھوڑ دیا جائے، جو دنگا کرنے اور ایک آدمی کے قتل کے الزام میں جیل میں قید تھا۔ پیلاطس نے انکی مانگ کے مطابق برابّس کو چھوڑ دیا اور عیسیٰ(ا.س) کو موت کی سزا کا حکم دیا۔(25)
سپاہی عیسیٰ(ا.س) کو وہاں سے لے گئے۔ اُس وقت شمون نام کا ایک آدمی گاؤں سے شہر کی طرف آ رہا تھا۔ اُس گاؤں کا نام کرین تھا۔ سپاہیوں نے شمون سے زبردستی کر کے عیسیٰ(ا.س) کی سولی اُٹھا کر چلنے کے لئے کہا۔(26) لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ عیسیٰ(ا.س) کے پیچھے چل رہی تھی۔ کچھ عورتیں اِسی غم میں زور-زور سے رَو رہیں تھیں۔(27) عیسیٰ(ا.س) انکی طرف مڑے اور انسے کہا، ”یروشلم کی عورتوں، میرے لئے مت رَو۔ تم اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے بھی رَو!(28) وہوقت آئےگا جب لوگ کہیں گے کی وہ عورتیں بہت خوش نصیب ہیں جو بچہ پیدا نہیں کر سکتیں! کتنی خوش ہیں وہ عورتیں جنکے پاس دیکھ بھال کے لئے گود میں بچے نہیں ہیں۔(29) تب لوگ موت مانگیں گے اور پہاڑوں سے کہیں گے، ’ہمارے اوپر گر جاؤ!‘(30) اگر لوگ ابھی شروعات میں ہی اِس طرح سے کریں گے تو پھر جب قیامت آئے گی تو کیا ہوگا؟“(31)
عیسیٰ(ا.س) کے ساتھ دو مجرم بھی چل رہے تھے جن کو موت کی سزا دینے کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔(32) اُن کو گولگوٹا نام کی ایک جگہ پر لے جایا گیا۔ اُس جگہ پر سپاہیوں نے عیسیٰ(ا.س) اور دونوں مجرموں کو انکی سولی پر کیلوں سے ٹھوک دیا۔ ایک مجرم عیسیٰ(ا.س) کے سیدھے ہاتھ کی طرف تھا اور دوسرا انکے الٹے ہاتھ کی طرف۔(33) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”یا الله ربل کریم، ہمارے پالنے والے، ان کو معاف کر دے۔ یہ نہیں جانتے کی یہ کیا کر رہے ہیں۔“ سپاہیوں نے گوٹیاں پھینک کر آپس میں فیصلہ کیا کی کون انکے کپڑے لےگا۔(34) لوگ وہیں کھڑے ہو کر دیکھتے رہے۔ رہنماؤں نے عیسیٰ(ا.س) کا مذاق اُڑایا۔ اُنہوں نے کہا، ”اگر یہ الله تعالى کا چنا ہوا مسیحا ہے، تو یہ اپنے آپکو بچا لےگا۔ اس نے دوسرے لوگوں کو بچایا ہے، کیا اس نے ایسا نہیں کرا ہے؟“(35) یہاں تک کی سپاہیوں نے بھی عیسیٰ(ا.س) کا مذاق اُڑایا۔ وہ عیسیٰ(ا.س) کے پاس گئے اور اُن کو پینے کے لئے سرکہ پیش کیا۔(36) اُن لوگوں نے کہا، ”اگر تم یہودیوں کے بادشاہ ہو تو اپنے آپ کو بچا لو!“(37) انکی سولی پر لکھ دیا گیا تھا: ”یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔“(38)
انکے پاس لٹکے ہوئے ایک مجرم نے عیسیٰ(ا.س) کے خلاف بکنا شروع کر دیا۔ وہ کہہ رہا تھا، ”کیا تم مسیحا نہیں ہو؟ اگر ہو تو خود کو بچاؤ اور ہمیں بھی!“(39) لیکن دوسرے مجرم نے اسکو خاموش کرنے کی کوشش کری اور کہا، ”تمہیں الله تعالى سے ڈرنا چاہئے! تمکو بھی وہی سزا ملی ہے جو اِنہیں ملی ہے۔(40) ہمارے ساتھ انصاف ہوا ہے؛ ہمیں مرنا ہی ہے، لیکن یہ بےقصور ہیں!“(41) پھر دوسرے مجرم نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”جناب عیسیٰ(ا.س)، آپ مجھے اُس وقت یاد رکھنا جب آپ اپنی حکومت میں واپس آئیں!“(42) عیسیٰ(ا.س) نے اُس سے کہا، ”سنو! مَیں تمکو سچ کہتا ہوں: آج تم میرے ساتھ جنت میں ہوگے!“(43)
وہ دوپہر کا وقت تھا پھر بھی پوری زمین پر دن میں تین بجے تک اندھیرا چھایا ہوا تھا۔(44) سورج کی روشنی چھپ گئی تھی اور بیتول-مُقدّس میں ٹنگے پردے پھٹ گئے تھے۔(45)
عیسیٰ(ا.س) نے بہت تیز آواز میں چیخ کر کہا، ”یا الله رب العالمین، ہمارے پالنے والے، مَیں تجھے اپنی روح واپس دے رہا ہوں۔“ یہ کہنے کے بعد عیسیٰ(ا.س) نے اپنی آخری سانس لی۔(46) فوج کا سردار یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسنے الله تعالى کی تعریف کرنی شروع کر دی اور کہا، ”سچ میں یہ ایک بےگناہ آدمی تھا!“(47) اُس جگہ پر ایک بڑی بھیڑ اِس واردات کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئی تھی۔ جب وہ لوگ یہ سب دیکھ چکے تو اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ گئے۔ عیسیٰ(ا.س) کے چاہنے والے اپنا سینا پیٹ رہے تھے اور رَو رہے تھے۔(48) وہلوگ عیسیٰ(ا.س) کے قریبی دوستوں میں سے تھے؛ اُن لوگوں میں وہ عورتیں بھی تھیں جو گلیل سے انکے ساتھ پیچھے-پیچھے آئیں تھیں۔ وہ سب لوگ دُور پر کھڑے ہو کر یہ سب دیکھ رہے تھے۔(49)
یہودی قصبہ، عرمتیہ، کا ایک آدمی بھی وہاں پر موجود تھا جن کا نام جناب یوسف تھا۔ وہ ایک پرہیزگار اور دینی آدمی تھا۔(50) وہبےصبری سے الله تعالى کی بادشاہت کا انتظار کر رہا تھا۔ جناب یوسف یہودی جماعت کا حصہ تھا۔(51) وہ پیلاطس کے پاس گئے اور اسسے عیسیٰ(ا.س) کے مُردہ جسم کو مانگا۔(52) جناب یوسف نے عیسیٰ(ا.س) کے مُردہ جسم کو سولی پر سے اُتارا اور اُن کو کفن میں لپیٹا۔ اُنہوں نے انکے جسم کو پتھر میں کٹی ایک قبر میں لٹا دیا۔ یہ قبر اِس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئی تھی۔(53)
یہ جمعے کی شام کا وقت تھا، جس دن فسح کی عید کے لئے خاص تیاریاں شروع کری جاتی تھیں۔ سورج کے ڈوبتے ہی سبت[a] کا دن شروع ہونے والا تھا۔(54) وہعورتیں جو عیسیٰ(ا.س) کے پیچھے-پیچھے گلیل سے آ گئیں تھیں، وہ بھی جناب یوسف کے پیچھے موجود تھیں۔ اُنہوں نے وہ قبرگاہ دیکھی اور قبر کے اندر جھانک کر دیکھا جہاں عیسیٰ(ا.س) کو دفن کرا جانا تھا۔(55) وہعورتیں کفن-دفن میں استعمال ہونے والے خاص خوشبودار تیل اور جڑی-بوٹیوں کا انتظام کرنے چلی گئیں۔ سبت کے دن اُن لوگوں نے آرام کیا جیسا کی موسیٰ(ا.س) کے قانون میں کہا گیا ہے۔(56)