بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
بھائی کی سازش
انجیل : متّا 18:15-35
[عیسیٰ(ا.س) نے بتایا کی تمہیں کیا کرنا چاہئے جب کوئی تمہارے خلاف سازش کرے۔ اُنہوں نے کہا،] ”اگر تمہارا بھائی تمہارے ساتھ سازش کرے، تو تم اُسے اکیلے میں اُس کی غلطی کا احساس دلاؤ۔ اگر وہ تمہاری بات مان جائے تو تم نے اپنے بھائی سے رشتے کو پھر سے مضبوط کر لیا۔(15)
”اگر وہ تمہاری بات ماننے سے انکار کر دے، تو تم اُس کے پاس پھر سے جاؤ اور اِس بار ایک یا دو لوگوں کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ [جیسا کی توریت شریف میں لکھا ہے:] ’دو لوگوں کی گواہی جرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔‘[a](16)
”اگر وہ اُن لوگوں کی بات بھی سننے سے انکار کر دے، تو پھر یہ بات اپنی جماعت کو بتا دو۔ اگر وہ اُن لوگوں کی بات ماننے سے بھی انکار کر دے، تو پھر تم اپنے بھائی سے ایسا سلوک کرو کی جیسے وہ ایک بُت پرست اور بےایمان ٹیکس وصول کرنے والا ہے۔(17)
”حقیقت یہ ہے کی تمکو پروردگار نے اِس بات پر حکومت دی ہے کی تم جس چیز پر بھی چاہو اُس پر پابندی لگاؤ یا اُس کی اجازت دو۔(18) اگر کوئی دو لوگ کسی ایک بات پر راضی ہوتے ہیں، اور پھر اُس کے لئے دعا کرتے ہیں، تو میرا پروردگار تمہارے لئے اُس دعا کو قبول کرےگا۔(19) کیونکہ، جب بھی تم دو یا تین لوگ مل کر میرے نام کے وسیلے سے دعا مانگوگے، تو مَیں تمہارے ساتھ موجود ہوں گا۔“(20)
تب عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد جناب پطرس نے پاس آ کر انسے پوچھا، ”اُستاد، جب میرا بھائی میرے خلاف سازش کرے تو مَیں اسکو کتنی بار معاف کروں؟ کیا مَیں اسکو سات بار معاف کروں؟“(21)
عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”مَیں کہتا ہوں کی تم اسکو سات بار سے زیادہ معاف کر دو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ ستر گنا سات بار بھی سازش کرے تو بھی اُسے معاف کر دو۔(22)
”سنو! الله رب العظیم کی سلطنت اُس بادشاہ کے جیسی ہے کی جو اپنے نوکروں سے اپنا قرض وصول کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔(23) وہ بادشاہ اپنے نوکروں سے پیسا وصول کرنا شروع کرتا ہے۔ ایک نوکر کے اوپر اُسکا دس ہزار سونے کی تھیلیوں کا قرضہ تھا۔[b](24) لیکن اُس کے پاس اُسے ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ تو اُس بادشاہ نے حکم دیا کی اُس نوکر کو اور اُسکا سب کچھ بیچ دیا جائے، یہاں تک کی اُس کی بیوی اور بچے کو بھی تاکی اُس پیسے سے بادشاہ کے قرض کو وصول کیا جا سکے۔(25)
”اُس نوکر نے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر بادشاہ سے فریاد کری، ’میرے اوپر رحم کیجیے۔ مَیں اپنے سارے قرض کو چکا دوں گا۔‘(26) بادشاہ کو اپنے نوکر پر رحم آ گیا۔ تو بادشاہ نے اُس نوکر کے قرضے کو معاف کر کے اُسے آزاد کر دیا۔(27)
”بعد میں، اُس نوکر کو دوسرا نوکر ملا جس نے اُس سے چاندی کے سو سِکے قرض میں لئے تھے۔ اسنے دوسرے نوکر کا گریبان پکڑ لیا اور کہا، ’مجھ سے لئے چاندی کے سِکے واپس کرو!‘(28)
”دوسرے نوکر نے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر اسسے فریاد کری، ’میرے اوپر رحم کرو! مَیں اپنا سارا قرض ادا کر دوں گا۔‘(29)
”لیکن اُس نوکر نے رحم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسنے دوسرے نوکر کو قید خانے میں اُس وقت تک کے لئے ڈلوا دیا جب تک وہ اُسکا قرض ادا نہیں کر دیتا۔(30) جب باقی نوکروں نے یہ سب دیکھا تو اُنہیں بہت بُرا لگا۔ وہ سب بادشاہ کے پاس گئے اور سارا قصّہ بیان کر دیا۔(31)
”تب بادشاہ نے اُس نوکر کو بلوایا اور کہا، ”اے گناہ گار نوکر! تونے مجھ سے رحم کی فریاد کی اور مینے تیرے قرض کو معاف کر دیا۔(32) جس طرح سے مینے تجھ پر رحم کیا تھا اُسی طرح سے تجھے دوسرے نوکر پر رحم کرنا چاہئے تھا۔(33) بادشاہ کو اُس پر بہت غصہ آیا اور اسکو قید خانے کے داروغہ کے حوالے کر دیا۔ اسکو تب تک قید میں رکھنے کے لئے کہا جب تک وہ اپنے سارے قرض کو ادا نہیں کر دیتا۔(34)
”اُس بادشاہ نے بھی وہی کیا جو میرا پروردگار اُن لوگوں کے ساتھ کرےگا جو اپنے بھائی کو دل سے معاف نہیں کریں گے۔“(35)