بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
عیسیٰ(ا.س) نے بتایا طلاق کیا ہے؟
انجیل : متّا 19:1-15
عیسیٰ(ا.س) لوگوں کو تعلیم دینے کے بعد گلیل نام کے شہر سے روانہ ہو گئے۔ وہ یہودیہ نام کی ایک جگہ پر پہنچے جو جورڈن ندی کے دوسری طرف تھی۔(1) ایک بہت بڑی بھیڑ بھی انکے پیچھے-پیچھے چل رہی تھی۔ عیسیٰ(ا.س) نے وہاں لوگوں کو شفا عطا کری۔(2)
کچھ فریسی لوگ [یہودی رہنما جو موسیٰ(ا.س) کی شریعت پر سختی سے عمل کرتے تھے] عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے۔ اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) کا امتحان لینے کے لئے انسے سوال پوچھے۔ اُنہوں نے سوال کیا، ”کیا یہ صحیح ہے کی ایک آدمی اپنی بیوی کو کسی بھی وجہ سے طلاق دے سکتا ہے؟“(3) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”یہ سچ ہے کی تم نے آسمانی کتاب [توریت] پڑھی ہے، جس میں یہ لکھا ہے: جب شروعات میں الله تعالى نے انسان کو بنایا، ’تو اُن کو آدمی اور عورت کو بنایا۔‘(4) الله تعالى نے کہا، ’اِسی وجہ سے آدمی گھر والوں میں سے اپنی بیوی پر سب سے زیادہ دھیان دیتا ہے اور وہ دو جسم ایک جان ہو جاتے ہیں۔‘[a](5) تو وہ دو نہیں بلکہ ایک ہیں۔ الله تعالى نے اُن کو ایک کر دیا ہے، تو اِس لئے کسی کو اُنہیں الگ نہیں کرنا چاہئے۔“(6)
تب فریسی نے عیسیٰ(ا.س) سے پوچھا، ”تو پھر موسیٰ(ا.س) نے کیوں حکم دیا کی جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے تو اُسے واپس بھیجنے سے پہلے لکھ کر طلاق کی سند دے؟“[b](7)
عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”کیونکہ الله تعالى کا کہنا نہ ماننے کی وجہ سے تمہارے دل سخت ہو گئے ہیں، اِس لئے موسیٰ(ا.س) نے تمہیں اپنی بیویوں کو طلاق دینے کی اجازت دی تھی۔ لیکن طلاق دینا شروع میں اِس طرح نہیں تھا۔(8) مَیں کہتا ہوں کی جو بھی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے، بنا یہ ثابت ہوئے کی وہ کسی اور کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی ہے، اور کسی دوسری عورت سے شادی کر لیتا ہے، تو وہ زنا کا گناہ گار ہے۔“(9)
شاگردوں نے عیسیٰ(ا.س) سے سوال کیا، ”اگر صرف اِسی وجہ سے ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے تو پھر بہتر ہے کی وہ کبھی شادی ہی نہ کرے۔“(10)
عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”سارے لوگ ایسا نہیں کر سکتے؛ صرف وہی کر سکتے ہیں کی جن کو ایسا پیدا کیا گیا ہے۔(11) کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو شادی کرنے کے لائق نہیں ہوتے اور کچھ لوگوں کو انسان خود اپنے ہاتھوں سے ایسا بنا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی پوری زندگی الله تعالى کی سلطنت میں لگا دیتے ہیں اور کبھی شادی نہیں کرتے۔ جو کوئی بھی اِس بات کو قبول کر سکتا ہے، تو اُسے قبول کرنا چاہئے۔“(12)
تب لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو عیسیٰ(ا.س) کے پاس لے کر آئے تاکی وہ اپنا ہاتھ انکے سر پر رکھ کر دعا دیں، لیکن شاگردوں نے لوگوں سے کہا کی وہ اپنے بچوں کو انکے پاس نہ لے جائیں۔(13) تب عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”بچوں کو میرے پاس آنے دو اُنہیں مت روکو، کیونکہ الله رب العظیم کی سلطنت اُن لوگوں کے لئے ہے جو بچوں کے جیسے [معصوم] ہوتے ہیں۔“(14) عیسیٰ(ا.س) نے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں دعا دی اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔(15)