بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
معافی
انجیل : یوحنا 8:1-12
ایک صبح، عیسیٰ(ا.س) زیتون کی پہاڑی سے واپس (یروشلم کی عبادت گاہ) بیتول-مُقدّس کے آنگن میں گئے۔ وہاں موجود سارے لوگ انکے پاس آ گئے اور وہ اُن کو بیٹھ کر پڑھانے لگے۔(1-2) تبھی وہاں عبرانی مذہبی رہنما اور فریسی لوگ ایک عورت کو لے کر آئے۔ اُس عورت کو زناکاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن لوگوں نے اُس عورت کو زبردستی لوگوں کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔(3)
اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”اُستاد، اِس عورت کو ایک غیر-مرد کے ساتھ زنا کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔(4) موسیٰ(ا.س) کے قانون کے مطابق اِس عورت کو پتھروں سے مار ڈالنا چاہئے۔ آپ بتائیے، ہم کیا کریں؟“(5)
وہ لوگ عیسیٰ(ا.س) کے علم کا امتحان لے رہے تھے۔ وہ چاہ رہے تھے کی اُن پر موسیٰ(ا.س) کا قانون توڑنے کا الزام لگا سکیں۔ عیسیٰ(ا.س) جھک کر زمین پر اپنی انگلی سے کچھ لکھنے لگے۔(6) وہ عیسیٰ(ا.س) سے بار-بار وہی پوچھتے رہے۔ آخر میں، عیسیٰ(ا.س) سیدھے کھڑے ہوئے اور بولے، ”کیا ایسا یہاں کوئی انسان موجود ہے کی جس نے کبھی کوئی گناه نہ کیا ہو؟ وہی مومن اِس عورت کو پہلا پتھر مار سکتا ہے۔“(7) عیسیٰ(ا.س) پھر سے جھک کر زمین پر کچھ لکھنے لگے۔(8)
جب لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کے اِس جواب کو سنا، تو وہ سب ایک-ایک کر کے وہاں سے جانے لگے۔ پہلے بوڑھے گئے اور پھر بچے ہوئے لوگ اُس عورت کو چھوڑ کر چلے گئے۔(9) عیسیٰ(ا.س) پھر اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور اُس عورت سے پوچھا، ”کیا سارے لوگ تمکو بنا سزا دیئے ہی چلے گئے؟“(10)
اسنے جواب دیا، ”نہیں اُستاد، مجھے کسی نے سزا نہیں دی۔“
تب عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”مَیں بھی تم کو سزا نہیں دوں گا۔ جاؤ، لیکن اب گناه نہیں کرنا۔“(11)
تب عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں سے کہا [جن کو وہ پڑھا رہے تھے]، ”مَیں دنیا کے لئے روشنی ہوں۔ جو بھی میری بات پر عمل کرےگا، وہ اندھیرے میں نہیں چلےگا بلکہ، اُس کی زندگی بھی روشن ہو جائےگی۔“(12)