بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
عیسیٰ(ا.س) کی موت پر قدرت
انجیل : یوحنا 11:1-57
لازرس نام کا ایک آدمی تھا جو بیمار تھا۔ وہ بیتانی یا نام کے ایک قصبے میں اپنی دو بہنوں کے ساتھ رہتا تھا جن کا نام مریم اور مارتھا تھا۔(1) وہمریم ہی تھی جنہوںے عیسیٰ(ا.س) کے پیروں پر عطر کی بوتل اُنڈیل دی تھی اور پھر انکے پیروں کو اپنے بالوں سے صاف کیا تھا۔ مریم کا بھائی بیمار تھا(2) اِس لئے اُنہوں نے ایک آدمی کو عیسیٰ(ا.س) کے پاس بھیج کر کہلوایا، ”آپ کا اچھا دوست بیمار ہے۔“(3)
جب عیسیٰ(ا.س) نے یہ بات سنی تو کہا، ”اِس بیماری سے اُس کی زندگی ختم نہیں ہوگی۔ اِس سے الله تعالى کی عظمت ظاہر ہوگی جو اُس کی اور اُس کے چنے ہوئے نمائندے کے لئے عزت لے کر آئی ہے۔“(4) عیسیٰ(ا.س) لازرس، مارتھا، اور مریم سے پیار کرتے تھے۔(5) جب اُنہوں نے لازرس کی بیماری کے بارے میں سنا تو وہ جہاں تھے وہاں دو دن اور زیادہ رُک گئے۔(6) تب عیسیٰ(ا.س) نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”چلو، ہم یہودیہ واپس چلتے ہیں۔“ [جہاں بیتانی یا نام کا قصبہ تھا۔](7) شاگردوں نے کہا، ”لیکن اُستاد، وہاں یہودیوں نے ہمیں پتھروں سے مارنے کی کوشش کری تھی۔ یہ ابھی تھوڑے وقت پہلے کی بات ہے اور اب آپ چاہتے ہیں کی ہم وہاں پھر سے جائیں؟“(8) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”کیا دن میں بارہ گھنٹے نہیں ہوتے ہیں؟ اگر کوئی دن کے اُجالے میں چلےگا تو وہ ڈگمگاےگا نہیں، کیونکہ وہ دنیا کی روشنی میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔(9) لیکن اگر کوئی رات میں چلتا ہے تو وہ گر جاتا ہے کیونکہ اسکو راستا دکھانے کے لئے روشنی نہیں ہے۔“(10)
عیسیٰ(ا.س) نے اِس سب کے بعد یہ کہا، ”ہمارا دوست لازرس سو گیا ہے۔ لیکن مَیں وہاں جا کر اسکو نیند سے اٹھاؤں گا۔“(11) شاگردوں نے کہا، ”لیکن جناب، اگر وہ سو جائےگا تو تندرست ہو جائےگا۔“(12) عیسیٰ(ا.س) کے کہنے کا مطلب تھا کی لازرس موت کی نیند میں سو چکا ہے۔ لیکن عیسیٰ(ا.س) کے شاگردوں کو لگا کی وہ سچ میں سو رہا ہے۔(13) تب عیسیٰ(ا.س) نے بنا کسی پریشانی سے کہا، ”لازرس مر گیا ہے۔(14) مَیں تمہارے لئے خوش ہوں کی مَیں وہاں موجود نہیں تھا تاکی تم یقین کرو۔ چلو، اب ہم اُس کے پاس چلتے ہیں۔“(15) تب تھوما (جس کو ڈیڈیمس بھی کہتے تھے) نے دوسرے شاگردوں سے کہا،”چلو، ہم بھی چلتے ہیں، تاکی ہم اُس کے ساتھ مر سکیں۔“(16)
عیسیٰ(ا.س) جب بیتانی یا پہنچے تو اُنہیں پتا چلا کی لازرس چار دن پہلے ہی مر چکا ہے۔ اسکو قبر میں دفنا دیا گیا تھا۔(17) بیتانی یا یروشلم سے دو میل کی دوری پر تھا۔(18) بہت سارے یہودی لوگ یروشلم سے مارتھا اور مریم کو پُرْسَہ دینے آئے تھے۔(19) جب مارتھا نے عیسیٰ(ا.س) کے آنے کی خبر سنی، تو وہ انسے ملنے کے لئے چل پڑی لیکن مریم گھر پر ہی رکی رہی۔(20) مارتھا نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”سرکار، اگر آپ یہاں پہلے آ جاتے، تو میرا بھائی نہیں مرتا۔(21) مَیں یہ بھی جانتی ہوں کی آپ الله رب العظیم سے جو بھی مانگیں گے وہ آپکو ضرور ملےگا۔“(22)
عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”تمہارا بھائی زندہ ہوگا اور پھر سے جئےگا۔“(23) مارتھا نے جواب دیا، ”مَیں جانتی ہوں کی وہ قیامت کے دن پھر سے زندہ ہو جائےگا۔“(24) عیسیٰ(ا.س) نے اسسے کہا، ”مَیں لوگوں کو موت سے زندہ کرنے والا ہوں، اور مَیں ہی جان ہوں۔ مجھ پر ایمان رکھنے والا اگر مر بھی جائے تو بھی زندہ ہو جاتا ہے۔(25) اور جو زندہ ہے اور مجھ پر ایمان بھی رکھتا ہے تو وہ کبھی نہیں مرتا۔ مارتھا، کیا تم اِس بات پر ایمان رکھتی ہو؟“(26) مارتھا نے جواب دیا، ”جی حضور، مَیں اِس بات پر ایمان رکھتی ہوں کی آپ مسیحا ہیں، الله رب العظیم کے پیارے نمائندے، جو اِس دنیا میں آئے ہیں۔“(27)
مارتھا یہ سب کہنے کے بعد، اپنے گھر واپس چلی گئی اور اسنے اپنی بہن مریم کو چپ چاپ ساری باتیں بتا دیں۔ مارتھا نے کہا، ”ہمارے رہنما یہاں آ گئے ہیں اور وہ تمہیں بُلا رہے ہیں۔“(28) جب مریم نے یہ باتیں سنیں تو جلدی سے اُٹھ کر عیسیٰ(ا.س) سے ملنے چل پڑی۔(29) عیسیٰ(ا.س) تب تک شہر کے اندر نہیں گئے تھے اور ابھی اُسی جگہ پر ہی تھے جہاں مارتھا انسے ملنے آئی تھی۔(30) یہودی لوگ مریم کو پُرْسَہ دینے آئے تھے اور جب اُنہوں نے مریم کو اُٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اُس کے پیچھے-پیچھے چل پڑے۔ اُن کو لگا کی مریم قبر پر رونے کے لئے جا رہی ہے۔(31) لیکن، مریم اُس جگہ گئی جہاں عیسیٰ(ا.س) تھے اور اُن کو دیکھ کر انکے قدموں میں گر گئی۔ وہ بولی، ”حضور، اگر آپ یہاں ہوتے، تو میرا بھائی نہیں مرتا۔“(32) عیسیٰ(ا.س) نے دیکھا کی مریم رَو رہی ہے اور اُس کے ساتھ آئے یہودی بھی رَو رہے ہیں۔ عیسیٰ(ا.س) کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور وہ بہت پریشان ہوئے۔(33) اُنہوں نے پوچھا، ”تم نے اُسے کہاں دفن کیا ہے۔“ اُنہوں نے کہا، ”آئے اور دیکھیے، حضور۔“(34) عیسیٰ(ا.س) بھی رَو پڑے۔[a](35) اُن کو روتا دیکھ کر یہودی آپس میں بولے، ”دیکھو یہ اسسے کتنی زیادہ مُحَبَّت کرتے ہیں۔“(36) لیکن کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا، ”اگر یہ آدمی اندھے لوگوں کو آنکھوں کی روشنی دے سکتا ہے، تو پھر اُسے مرنے سے کیوں نہیں بچایا؟“(37)
یہ سن کر عیسیٰ(ا.س) کو بہت افسوس ہوا۔ وہ قبر کے پاس گئے جو ایک غوفہ میں تھی جسکا منہ ایک پتھر سے بند تھا۔(38) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”اِس پتھر کو ہٹاؤ۔“ اُس مرے ہوئے بھائی کی بہن، مارتھا، نے کہا، ”لیکن حضور، اسکو مرے ہوئے چار دن ہو چکے ہیں اور اندر بہت زیادہ بدبو ہوگی۔“(39) تب عیسیٰ(ا.س) نے اسسے کہا، ”کیا مینے تمکو نہیں بتایا تھا کی اگر تم ایمان رکھتی ہو تو تم الله ربل کریم کی طاقت دیکھوگی؟“(40)
تو اُن لوگوں نے غوفہ کا دروازہ کھول دیا۔ عیسیٰ(ا.س) نے دیکھا اور کہا، ”اے، پالن ہار، مَیں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کی تونے میری دعا کو سن لیا۔(41) مَیں جانتا ہوں کی تُو مجھے ہر وقت سنتا ہے۔ لیکن میرے آس-پاس لوگ کھڑے ہیں۔ مَیں یہ اِس لئے کہہ رہا ہوں تاکی اُن کو یقین ہو جائے کی تونے ہی مجھے بھیجا ہے۔“(42) عیسیٰ(ا.س) نے، یہ سب کہنے کے بعد، ایک تیز آواز میں چیخ کر پکارا، ”لازرس، باہر آؤ!“(43) یہ سنتے ہی وہ باہر نکل آیا اور اُس کے جسم پر کفن کے ٹکڑے ابھی بھی بندھے ہوئے تھے۔ عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں سے کہا، ”اسکے جسم سے کفن اتارو اور اِسے جانے دو۔“(44)
وہاں پر بہت سارے یہودی تھے جو مریم سے ملنے آئے تھے۔ ان میں سے بہت سارے لوگوں نے جب عیسیٰ(ا.س) کی اِس قدرت کو دیکھا تو وہ اُن پر ایمان لے آئے۔(45) لیکن، کچھ لوگ فریسیوں کے پاس مخبری کرنے چلے گئے اور عیسیٰ(ا.س) کے اُس کرشمے کے بارے میں بتایا۔(46) بڑے امام اور فریسیوں نے یہودی رہنماؤں کو ملنے کے لئے بُلایا۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کرا، ”ہم سب کیا کریں؟ یہ آدمی بہت کرشمے دکھا رہا ہے۔(47) اگر ہم نے اسکو نہیں روکا تو ہر کوئی اُس پر ایمان لے آئےگا۔ تب رومی لوگ یہاں آ کر ہمارے ہاتھ سے ہماری عبادت گاہ اور ہماری قوم لیں گے۔“(48) وہاں پر ایک آدمی موجود تھا جسکا نام کائفا تھا۔ وہ اُس سال کا سب سے بڑا امام تھا۔ کائفا نے کہا، ”تم لوگ کچھ نہیں جانتے ہو!(49) یہ اچھا ہے کی ایک آدمی لوگوں کے لئے مر جائے تو پوری قوم تباہ ہونے سے بچ جائےگی۔“(50)
کائفا، انجانے میں عیسیٰ(ا.س) کے قربان ہونے کی پیشن گوئی کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کی وہ سارے لوگوں کے لئے قربانی دیں گے۔(51) الله تعالى یہ سب صرف یہودیوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے بندوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کے لئے کر رہا تھا۔(52)
یہودی لوگ عیسیٰ(ا.س) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔(53) اِسی وجہ سےعیسیٰ(ا.س) نے انکے بیچ میں بےفکری سے سفر کرنا چھوڑ دیا۔ وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر افرائیم نام کے ایک شہر میں چلے گئے جو ریگستان کے پاس تھا اور وہیں اپنے شاگردوں کے ساتھ رہنے لگے۔(54)
یہودیوں کی فسح کی عید[b] کا وقت قریب آیا۔ عید سے پہلے بہت سارے لوگ یروشلم چلے گئے تھے۔ وہاں اُنہوں نے اپنے آپکو پاک کرنے کے لئے رسمیں پوری کریں۔(55) لوگ عیسیٰ(ا.س) کو ڈھونڈھ رہے تھے۔ وہ عبادت گاہ میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، ”تمہیں کیا لگتا ہے؟ کیا وہ اِس جشن میں آئیں گے یا نہیں؟“(56)
امام اور فریسی لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کو قید کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ اُنہوں نے لوگوں سے کہا تھا کی وہ اُنہیں بتایں کی عیسیٰ(ا.س) کہاں ہیں، تاکی اُن کو گرفتار کیا جا سکے۔(57)