بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
نجات پانے کا آسان طریقہ
انجیل : یوحنا 3:1-21
جناب نیکودیمس نام کے ایک یہودی آدمی تھے جو فریسی کہلاتے تھے۔ [فریسی لوگ موسیٰ(ا.س) کے قانون پر سختی سے عمل کرتے تھے۔] جناب نیکودیمس یہودیوں کے ایک خاص رہنما تھے۔(1) ایک رات جناب نیکودیمس عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے اور کہا، ”اُستاد، ہم جانتے ہیں کی آپ الله تعالى کے بھیجے ہوئے ایک اُستاد ہیں۔ آپ وہ کرشما کرتے ہیں جو کوئی بھی نہیں کر سکتا جب تک کی الله رب العظیم اُس آدمی کے ساتھ نہ ہو۔“(2)
عیسیٰ(ا.س) نے اُنہیں جواب دیا، ”یقیناً، مَیں تمکو آج ایک حقیقت بتاتا ہوں۔ جب تک تم پھر سے اوپر سے پیدا ہو کر نہیں آؤ گے، تب تک الله تعالى کی سلطنت میں نہیں آ پاؤگے۔“(3) جناب نیکودیمس نے کہا، ”جو آدمی بوڑھا ہو چکا ہے، وہ کیسے دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے؟ وہ اپنی ماں کے جسم میں واپس نہیں جا سکتا، تو پھر وہ دوبارہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟“(4) اِس بات پر عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”یقیناً، مَیں تمکو ایک سچائی بتاتا ہوں، جب تک تم پانی اور روح سے پیدا نہیں کرے جاؤگے، تب تک تم الله تعالى کی سلطنت میں نہیں جا پاؤگے۔[a](5) جو بھی ایک جسم میں پیدا ہوا ہے وہ جسم ہی ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے وہ روح ہے۔(6) اگر مَیں تم سے یہ کہوں تو حیران نہ ہونا، ’تمکو الله تعالى کی طرف سے دوبارہ پیدا ہونا ہے۔‘(7) ہَوا جہاں چاہتی ہے وہاں چلی جاتی ہے۔ تم ہَوا کے چلنے کی آواز سنتے ہو مگر تمکو یہ نہیں پتا کی وہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ یہ قدرت اُس انسان کے پاس بھی ہے جو روح سے پیدا ہوا ہے۔“(8)
جناب نیکودیمس نے پوچھا، ”یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟“(9)
تو عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”تم ایک خاص اُستاد ہو تم یہ سب باتیں کیوں نہیں سمجھتے ہو؟(10) مَیں تمکو ایک حقیقت بتاتا ہوں۔ ہم صرف اُس بارے میں بات کرتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں پوری طرح سے پتا ہے۔ ہم اُس بارے میں بات کرتے ہیں جو ہم نے خود دیکھی ہے، لیکن پھر بھی تم میری گواہی پر یقین نہیں کر رہے ہو۔(11) جب مینے تمکو زمین پر ہونے والی سچائی کے بارے میں بتایا تو تم نے اُس پر یقین نہیں کیا تو پھر اگر مَیں تمکو جنت کے بارے میں بتاؤں گا تو تم اسکو کیسے مانو گے!(12) کوئی بھی جنت تک نہیں پہنچا، صرف آدمی کے بیٹے، جو وہاں سے نیچے آیا ہے۔(13)
”تمکو یاد ہے کی کس طرح موسیٰ(ا.س) نے ریگستان میں سانپ کو اوپر اُٹھایا تھا۔ اُسی طرح سے، آدمی کے بیٹے کو بھی اوپر اٹھانا ہوگا۔(14) تاکی جو بھی اُس پر یقین کرے اسکو کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ملے۔(15) الله ربل کریم اِس دنیا سے اِتنا پیار کرتا ہے کی اسنے اپنا چنا ہوا نمائندہ بھیجا، تاکی جو بھی اُس پر ایمان لائے وہ تباہ ہونے سے بچ جائے اور اسکو کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ملے۔(16)
”الله تعالى نے اُن کو اِس دنیا میں فیصلہ کرنے کے لئے نہیں بھیجا ہے۔ بلکہ اِس لئے بھیجا ہے کی دنیا کے لوگ انکے ذریعے سے سکون اور نجات پا سکیں۔(17) ہر ایک کو سزا سے بچا لیا جائےگا جو اُس پر ایمان لائےگا۔ اُن لوگوں کو سزا ملےگی جو اُس پر ایمان نہیں لائے ہیں کیونکہ اُن لوگوں نے الله تعالى کے چنے ہوئے نمائندے پر یقین نہیں کیا۔(18) اِسی وجہ سے اُن کو پہلے سے ہی یہ سزا سنا دی ہے: الله تعالى کا نور دنیا میں آ چکا ہے، لیکن لوگ روشنی سے زیادہ اندھیرے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ گناه والے کام کرتے ہیں۔(19) جو بھی گناه کرتا ہے وہ روشنی سے دُور بھاگتا ہے۔ وہ روشنی میں اِس لئے نہیں آنا چاہتے کیونکہ اُن کو ڈر رہتا ہے کی کہیں انکے گناه سامنے نہ آ جائیں۔(20) لیکن جو بھی صحیح راستے پر چلتا ہے وہ روشنی میں آ جاتا ہے اور دیکھ لیتا ہے کی اُنہوں نے جو بھی کام کئے تھے وہ الله تعالى کے لئے تھے۔“(21)
سانپ کے عذاب کا واقعہ
توریت : گنتی 21:4-9
[کافی صدیوں پہلے، موسیٰ(ا.س) کی نبوت کے زمانے میں] سارے عبرانی ہور کے پہاڑ کے پاس کی جگہ کو چھوڑ کر عقابہ کی کھاڑی میں چلے گئے جو بحر-اے-قلزم کے پاس میں تھی۔ اُنہوں نے ایسا اِس لئے کیا تاکی وہ ملک ادوم کے باہر سے گھوم کر جائیں۔ لیکن راستے میں انکے ساتھ کے لوگوں نے اپنا صبر کھو دیا اور(4) موسیٰ(ا.س) اور الله تعالى کے خلاف الٹی-سیدھی باتیں کرنے لگے۔ وہ لوگ کہنے لگے، ”تم ہمیں مصر سے باہر نکال کر کیوں لائے ہو؟ ہم ریگستان میں مر جائیں گے! ہمارے پاس کھانے کے لئے روٹی بھی نہیں ہے! پینے کے لئے پانی بھی نہیں ہے! اور ہم سے یہ بےکار[b] کھانا کھایا نہیں جاتا۔“(5)
تب الله تعالى نے اُن پر سانپوں کا عذاب بھیجا۔ اُن سانپوں نے لوگوں کو کاٹنا شروع کیا جس سے بہت سے عبرانی مر گئے۔(6) لوگ موسیٰ(ا.س) کے پاس آئے اور کہا، ”ہم نے آپ کے اور الله تعالى کے بارے میں الٹی-سیدھی باتیں کر کے گناه کیا ہے۔ آپ الله تعالى سے دعا کریے کی یہ سانپ چلے جائیں۔“ تو موسیٰ(ا.س) نے لوگوں کے لئے دعا کری۔(7)
الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) سے کہا، ”ایک پیتل کا سانپ بناؤ اور اسکو ایک ڈنڈے پر لگاؤ۔ جس کو بھی سانپ نے کاٹا ہوگا اگر وہ اسکو دیکھےگا تو وہ زندہ بچ جائےگا۔“(8) تو موسیٰ(ا.س) نے پیتل کا ایک سانپ بنایا اور اسکو ایک کھمبے پر لگایا۔ تب جس کو بھی سانپ کاٹ لیتا تھا وہ اسکو دیکھ کر زندہ بچ جاتا تھا۔(9)