بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ایک نئی شروعات
توریت : خلقت 8:1-22
الله تعالى نوح(ا.س) کو، اور انکے ساتھ جو کشتی پر جانور تھے، اُن کو بھولا نہیں تھا۔ الله تعالى نے زمین کے اوپر ہَوا چلائی اور سارا پانی زمین کے اندر جانا شروع ہو گیا۔(1) بارش پہلے ہی رُک چکی تھی اور زمین سے پانی نکلنا بند ہو گیا تھا۔(2) زمین پر جو پانی جمع تھا اسکو نیچے جانے میں ایک سو پچاس دن لگے اور تب پانی اِتنا کم ہو گیا کی کشتی واپس زمین پر آ گئی۔(3)
ساتویں مہینے کے سترویں دن نوح(ا.س) کی کشتی آرارات کے ایک پہاڑ پر جا رکی۔ (بارش کے شروع ہوئے اب تک پانچ مہینے ہو چکے تھے۔)(4) پانی کا زمین کے اندر جانا چالو رہا اور دسویں مہینے کے پہلے دن پہاڑوں کے اوپری حصے نظر آنے لگے۔(5) چالیس دن کے بعد نوح(ا.س) نے کشتی کی کھڑکی کو کھولا جو اُنہوں نے بنائی تھی اور(6) کووے کو باہر بھیجا۔ وہ زمین کے سوکھنے کے انتظار میں آسمان پر چکر لگانے لگا۔(7)
نوح(ا.س) نے ایک کبوتر کو بھی بھیجا یہ دیکھنے کے لئے کی وہ سوکھی زمین ڈھونڈھ پاتا ہے یا نہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کی کیا زمین ابھی بھی پانی سے بھری ہوئی ہے؟(8) کبوتر کو آرام کرنے کی جگہ نہیں ملی کیونکہ پانی نے ابھی بھی زمین کو دھک رکھا تھا اِس لئے کبوتر کشتی پر واپس آ گیا۔ نوح(ا.س) نے کبوتر کو واپس پکڑ کے اندر بٹھا دیا۔(9) نوح(ا.س) نے سات دن کے انتظار کے بعد کبوتر کو پھر بھیجا۔(10) اُس دوپہر کبوتر واپس آیا اور اُس کی چونچ میں زیتون کی تازہ پتیاں تھیں۔ نوح(ا.س) یہ سمجھ گئے کی زمین پر سوکھی جگہ اب موجود ہے۔(11) سات دنوں کے بعد نوح(ا.س) نے کبوتر کو واپس بھیجا لیکن اِس بار کبوتر واپس نہیں آیا۔(12)
اُس وقت نوح(ا.س) کی عمر چھ سو ایک سال تھی۔ اُنہوں نے نئے سال کے پہلے دن کشتی کا دروازہ کھولا اور دیکھا کی زمین سوکھ گئی تھی۔(13) دوسرے مہینے کے ستائیسویں دن زمین بلکل سوکھ چکی تھی۔ (اِس باڑ کو شروع ہوئے ایک سال اور دس دن گزر گئے تھے۔)(14) تب الله تعالى نے نوح(ا.س) سے کہا،(15) ”کشتی کو چھوڑ دو اور اپنی بیوی، بیٹوں، اور انکی بیویوں کے ساتھ باہر چلے جاؤ،(16) اور اُن جانوروں کو بھی باہر لے جاؤ جو تمہارے ساتھ کشتی پر ہیں، ہر طرح کی چڑیاں اور ہر طرح کے چلنے اور رینگنے والے جانور۔ یہ جانور اپنے جیسے پیدا کریں گے اور زمین کو آباد کر دیں گے۔“(17)
نوح(ا.س) اپنی بیوی، بیٹوں، اور انکی بیویوں کے ساتھ کشتی سے باہر آئے۔(18) سارے رینگنے والے، چلنے والے جانور، اور ساری چڑیاں ایک-ایک کر کے کشتی سے باہر آ گئے۔(19) تب نوح(ا.س) نے ایک خاص چبوترا بنایا اور کچھ پاک چڑیوں اور جانوروں کو اُس چبوترے پر قربان کیا اور بھونا ہوا گوشت الله تعالى کی شان میں پیش کیا۔(20) الله تعالى نے قربانی کو قبول کیا اور کہا، ”مَیں اب زمین کو انسانوں کی وجہ سے تباہ اور برباد نہیں کروں گا، چاہے انکے دل بچپنے میں ہی کیوں نہ بُرے ہو جائیں۔ مَیں اب زمین پر جاندار چیزوں کو برباد نہیں کروں گا جیسا مینے اب کیا ہے۔(21) زمین جب تک باقی ہے تب تک اُس پر فصل لگانے اور کاٹنے کا موسم ہوگا۔ زمین ٹھنڈی اور گرم رہےگی، سردی اور گرمی کا موسم ہوگا، دن اور رات ہوں گے۔“(22)