بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
الله تعالى کی سلطنت کی مثال
انجیل : متّا 20:1-34
[عیسیٰ(ا.س) نے یہ مثال اِس لئے دی تاکی لوگ الله تعالى کی سلطنت کے بارے میں سمجھ سکیں:]
”الله کی حکومت اُس آدمی کی طرح ہے کی جس کے پاس کچھ زمین ہے۔ ایک دن وہ صبح سویرے اپنے انگور کے باغ کے لئے مزدور تلاش کرنے نکلا۔(1) اُس آدمی نے ایک دن کی مزدوری چاندی کا ایک سکہ طے کری [جو آم طور پر ایک دن کی مزدوری تھی]۔ اسنے اُن سبھی مزدوروں کو اپنے باغ میں کام کرنے کے لئے بھیج دیا۔(2) تقریباً نو بجے وہ بازار گیا اور دیکھا کی کچھ لوگ خالی کھڑے ہوئے ہیں۔(3) تو اسنے اُن لوگوں سے کہا، ’اگر تم میرے انگور کے باغ میں مزدوری کروگے تو مَیں تمکو محنت کے حساب سے پیسے دوں گا۔‘(4) وہ لوگ اُس کے باغ میں کام کرنے کے لئے چلے گئے۔ وہ زمیندار دوپہر کے بارہ بجے اور پھر تین بجے بھی باہر گیا۔ وہ ہر بار کچھ لوگوں کو اپنے باغ میں مزدوری کے لئے طے کر لایا۔(5) شام کے پانچ بجے وہ پھر سے بازار پہنچا اور دیکھا کی کچھ لوگ خالی کھڑے ہوئے ہیں۔ اسنے اُن لوگوں سے پوچھا، ’تم لوگ پورا دن خالی کیوں کھڑے رہتے ہو؟‘(6) اُن لوگوں نے جواب دیا، ’کسی نے ہم کو کوئی کام نہیں دیا۔‘ اُس آدمی نے انسے کہا، ’تم لوگ میرے انگور کے باغ میں کام کرو۔‘(7)
”دن کے آخر میں، باغ کے مالک نے مزدوروں کے سردار سے کہا، ’سارے مزدوروں کو بُلا کر ان کا حساب کرو۔ سب سے آخر میں آنے والے مزدوروں سے حساب شروع کرو اور سب سے پہلے آنے والے مزدوروں پر ختم کرو۔(8)
”وہ مزدور جن کو شام پانچ بجے کام پر رکھا گیا تھا، اپنی مزدوری لینے کے لئے آئے۔ ان میں سے ہر مزدور کو چاندی کا ایک سکہ ملا۔(9) آخر میں وہ مزدور آئے جن کو سب سے پہلے کام پر رکھا گیا تھا۔ وہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کی اُن کو باقی مزدوروں سے زیادہ مزدوری ملےگی، لیکن اُن سب کو چاندی کا ایک سکہ ہی ملا۔(10) جب اُن کو چاندی کا ایک سکہ ہی ملا تو وہ سب زمیندار سے شکایت کرنے لگے۔(11) اُنہوں نے کہا، ’جن لوگوں کو آخر میں مزدوری پر رکھا گیا تھا اُن لوگوں نے صرف ایک گھنٹہ ہی کام کیا ہے۔ آپ نے اُن لوگوں کو اُتنا ہی دیا جتنا ہمیں ملا ہے جبکہ ہم نے پورا دن سورج کی گرمی میں محنت کری ہے۔(12)
”باغ کے مالک نے مزدوروں سے کہا، ’اے دوست، مینے تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے۔ تم سب چاندی کے ایک سِکے کی مزدوری پر راضی ہوئے تھے۔(13) تم اپنی مزدوری لے کر جا سکتے ہو۔ مَیں آخر میں آئے مزدوروں کو بھی وہی مزدوری دینا چاہتا ہوں جو مینے تمہیں دی ہے۔(14) قانون کے حساب سے مَیں اپنے پیسوں کے ساتھ جو چاہوں وہ کر سکتا ہوں۔ کیا تمہیں میری دریادلی اور مہربانی سے جلن ہو رہی ہے؟‘(15)
”بہت سارے لوگ جو آخر میں آئے ہیں، وہ پہلے سلطنت میں داخل ہوں گے اور جو پہلے آئے ہیں وہ آخر میں ہوں گے۔“(16)
(یہ سب کہنے کے بعد) عیسیٰ(ا.س) اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ یروشلم شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ سفر کے دوران عیسیٰ(ا.س) نے شاگردوں سے خاص بات کرنے کے لئے اُنہیں ایک جگہ جمع کیا۔ اُنہوں نے کہا،(17) ”ہم لوگ یروشلم جا رہے ہیں۔ آدمی کے بیٹے کو وہاں یہودی امام اور قانون کے اُستادوں کے سامنے لے جایا جائےگا۔ وہ سب کہیں گے اسکو قتل کر دینا چاہئے۔(18) وہ لوگ آدمی کے بیٹے کو غیر یہودی لوگوں کے حوالے کر دیں گے۔ وہ لوگ اُسکا مذاق اڑایں گے، کوڑے ماریں گے اور آخر میں اسکو سولی پر قتل کر دیں گے۔ لیکن اُس کی موت کے تیسرے دن وہ پھر سے زندہ کر دیا جائےگا۔“(19)
تب زبدی کی بیوی اپنے دونوں بیٹوں، جناب یعقوب اور جناب یوحنا، کو لے کر عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئیں۔ وہ دونوں بیٹے عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد تھے۔ انکی ماں نے تعظیم میں اپنا سر جھکایا اور انسے ایک گزارش کری۔(20)
عیسیٰ(ا.س) نے پوچھا، ”تم کیا چاہتی ہو؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”جب آپ اپنی سلطنت میں حکومت کریں تو میرے دونوں بیٹے اپنے دائیں اور بائیں کھڑا کریئےگا۔“(21)
تب عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”تم نہیں جانتی کی تم کیا مانگ رہی ہو۔“ اُنہوں نے بیٹوں سے کہا، ”کیا تم اُس مشکل سے گزر سکتے ہو جسسے مَیں گزرنے والا ہوں؟“
بیٹوں نے جواب دیا، ”جی ہاں، ہم کر سکتے ہیں!“(22)
عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”یہ سچ ہے کی تم لوگ وہ سب سہوگے جو مَیں سہوں گا لیکن مَیں یہ نہیں چن سکتا کی کون میرے سیدھے ہاتھ کی طرف رہےگا اور کون میرے الٹے ہاتھ کی طرف۔ ہمارا پروردگار ہی اپنی پسند سے اُس جگہ کے لئے بندوں کو چنےگا۔“(23)
جب باقی دس شاگردوں کو اِس خاص ملاقات کے بارے میں پتا چلا تو وہ اُن دونوں بھائیوں سے بہت ناراض ہوئے۔(24) عیسیٰ(ا.س) نے سارے شاگردوں کو اپنے پاس بُلایا۔ اُنہوں نے کہا، ”تمکو پتا ہے کی بادشاہ کتنی شان سے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں اور قوموں کے خاص لوگ انکی طاقت سے دوسروں پر حکم چلاتے ہیں۔(25) لیکن تم لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ تم میں سے جو کوئی بھی عظیم ہونا چاہےگا تو اسکو خدمت گار بننا پڑےگا۔(26) جو بھی انسان سب سے آگے ہونا چاہتا ہے تو اسکو غلامی کرنی ہوگی۔(27) آدمی کا بیٹا اِس لئے نہیں آیا ہے کی وہ دوسروں سے خدمت کروائے بلکہ وہ اِس لئے آیا ہے تاکی اپنی جان کا صدقہ دے کر دوسروں کی زندگی کو بچا لے۔“(28)
جب عیسیٰ(ا.س) اور اُن پر ایمان رکھنے والے لوگ اریخا شہر چھوڑ کر جا رہے تھے تو انکے چاہنے والوں کی ایک بڑی بھیڑ بھی انکے پیچھے چل پڑی۔(29) اُسی راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اُنہوں نے سنا کی عیسیٰ(ا.س) وہاں سے گزر رہے ہیں تو وہ دونوں چلائے، ”مولا، ہمارے مسیحا،[a] ہماری مدد کریے!“(30) لوگوں نے اندھوں کو پھٹکار لگائی اور چپ ہونے کے لئے کہا، لیکن وہ اور تیز آواز میں چلّانے لگے، ”مولا، ہمارے مسیحا، ہماری مدد کیجیے!“(31)
عیسیٰ(ا.س) روکے اور اُن نابینا لوگوں سے پوچھا ”تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“(32)
اُن دونوں نے جواب دیا، ”ہم چاہتے ہیں کی ہماری آنکھیں کھل جائیں۔“(33)
عیسیٰ(ا.س) کو اُن دونوں پر رحم آیا۔ اُنہوں نے انکی آنکھوں کو چھوا اور اُن دونوں کی روشنی واپس لوٹ آئی۔ اسکے بعد وہ دونوں بھی عیسیٰ(ا.س) کے پیچھے چل دیئے۔(34)