بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
رومی افسر کا عقیدہ
انجیل : لوکاس 7:1-30
لوگوں کو تعلیم دینے کے بعد، عیسیٰ(ا.س) کفرنحوم کے ایک قصبے میں گئے۔(1) وہاں پر ایک بہت بڑا رومی فوجی افسر رہتا تھا۔ اُس فوجی افسر کا ایک نوکر بہت بیمار تھا اور اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ وہ افسر اپنے نوکر کو بہت پسند کرتا تھا۔(2) جب اسکو عیسیٰ(ا.س) کے بارے میں پتا چلا، تو اسنے کچھ عزت دار یہودی رہنماؤں کو انکے پاس بھیجا۔ وہ چاہتا تھا کی وہ لوگ عیسیٰ(ا.س) سے کہیں کی وہ اِس مرتے ہوئے آدمی کو بچا لیں۔(3)
وہ لوگ عیسیٰ(ا.س) کے پاس پہنچے اور انسے افسر کی مدد کی بھیک مانگی۔ اُن لوگوں نے کہا، ”وہ افسر اِس لائق ہے کی آپ اِس کی مدد کریں۔(4) وہ قوم کے لوگوں سے بہت اچھا برتاؤ کرتا ہے اور اسنے ہمارے لئے ایک عبادت گاہ بھی بنوائی ہے۔“ عیسیٰ(ا.س) انکے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے۔(5) جب عیسیٰ(ا.س) اُس افسر کے گھر کے قریب پہنچے تو اُس افسر نے اپنے دوستوں کو بھیج کر کہلوایا، ”مالک میرے لئے کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مَیں اِتنا نیک نہیں ہوں کی آپ میرے گھر کے اندر آئیں۔(6) مَیں اسکے لائق نہیں ہوں، اِس لئے آپکی خدمت میں بھی حاضر نہیں ہو پایا۔ آپکو بس وہیں سے حکم دینے کی ضرورت ہے اور میرا نوکر وہیں سے ہی ٹھیک ہو جائےگا۔(7) مَیں یہ اِس لئے جانتا ہوں کی مَیں بھی کسی کے حکم پر عمل کرتا ہوں اور میری سرداری میں جو فوجی ہیں تو مَیں اُن کو حکم دیتا ہوں اور وہ اُس پر عمل کرتے ہیں۔ مَیں اگر کسی فوجی سے کہوں، ’یہاں آؤ،‘ تو وہ آ جاتا ہے اور اگر کہوں، ’وہاں جاؤ،‘ تو چلا جاتا ہے۔ اگر مَیں اپنے کسی نوکر سے کسی کام کو کرنے کا حکم دیتا ہوں، ’یہ کرو،‘ تو میرا نوکر میرا کہنا مانتا ہے۔“(8) جب عیسیٰ(ا.س) نے اُس کی اِس بات کو سنا تو وہ حیران رہ گئے اور ساتھ موجود لوگوں سے کہا، ”اسکے جیسا ایمان مینے کہیں نہیں دیکھا، اسرائیل میں بھی نہیں۔“(9) جو دوست عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے تھے، وہ گھر واپس چلے گئے اور وہاں جا کر دیکھا کی وہ نوکر ٹھیک ہو گیا تھا۔(10)
موت پر قدرت
اگلے دن عیسیٰ(ا.س) اور انکے شاگرد نئین نام کے ایک شہر پہنچے۔ انکے ساتھ بہت سارے لوگ سفر کر رہے تھے۔(11) جب عیسیٰ(ا.س) اُس قصبے کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کی لوگ ایک لڑکے کی لاش کو قبرستان لے جا رہے ہیں اور قصبے کے بہت سے لوگ مٹی میں شریک ہیں۔ وہ ایک بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔(12) جب عیسیٰ(ا.س) نے اُس عورت کو دیکھا تو اُنہیں بہت افسوس ہوا، اور اُنہوں نے اُس عورت سے کہا، ”رَو نہیں۔“(13) جب وہ اُس لڑکے کی لاش کے قریب پہنچے تو وہ سب لوگ وہیں رُک گئے۔ عیسیٰ(ا.س) نے اُس مرے ہوئے بیٹے کو پکار کر کہا: ”’اے نوجوان، مَیں تم سے کہتا ہوں، اُٹھ کھڑے ہو!“(14) تب وہ لڑکا اُٹھ کر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ عیسیٰ(ا.س) نے اُس بچے کو اُس کی ماں کو دے دیا۔(15) وہاں موجود سب لوگ ڈر کر سہم گئے۔ وہ سبھی الله تعالى کی تعریف کرنے لگے اور بول پڑے، ”ایک عظیم نبی ہمارے ساتھ ہے! اور الله ربل کریم اپنے بندوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔“(16) عیسیٰ(ا.س) کی اِس کرامت کی خبر پورے یہودیہ اور اُس کے آس-پاس کے علاقے میں پھیل گئی۔(17)
یحییٰ(ا.س) کون ہیں؟
یحییٰ(ا.س) کے ایک شاگرد نے اُنہیں آ کر اسکے بارے میں بتایا۔ یحییٰ(ا.س) نے اپنے دو شاگردوں کو(18) عیسیٰ(ا.س) سے یہ پوچھنے بھیجا: ”کیا آپ وہی ہیں جس کے بارے میں ہم نے سنا تھا کی آنے والا ہے، یا ہم کسی دوسرے کا انتظار کریں؟“(19) تو وہ شاگرد عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے اور پوچھا، ”کیا آپ وہی ہیں جس کے بارے میں ہم نے سنا تھا کی آنے والا ہے، یا ہم کسی اور کا انتظار کریں؟“(20)
اُن دنوں عیسیٰ(ا.س) بیماروں اور لاچاروں کا علاج کر رہے تھے۔ وہ لوگوں کو گندی روحوں سے نجات دے رہے تھے اور اُنہوں نے بہت سے اندھوں کو آنکھوں کی روشنی عطا کری تھی۔(21) اُنہوں نے یحییٰ(ا.س) کے شاگردوں سے کہا، ”جاؤ اور جا کر اُنہیں یہ سب بتاؤ جو تم نے دیکھا اور سنا ہے، اُنہیں بتاؤ: اندھے اب دیکھ سکتے ہیں۔ جن کو لکوا مار گیا تھا، اب وہ چل سکتے ہیں۔ کوڑھی ٹھیک ہو گئے ہیں۔ بحرے سن سکتے ہیں اور مُردوں کو پھر سے زندگی مل گئی ہے۔ غریبوں کو خوش خبری سنا دی گئی ہے۔(22) اُن لوگوں پر برکت نازل ہوگی کی جو لوگ میری وجہ سے ایمان سے نہیں بھٹکیں۔“(23)
جب یحییٰ(ا.س) کے شاگرد وہاں سے چلے گئے، تو عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں کو یحییٰ(ا.س) کے بارے میں بتانا شروع کیا: ”تم لوگ ریگستان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ گھاس کا ایک تنکا جو ہَوا میں اُڑ رہا ہے؟[a](24) اُنہوں نے پھر پوچھا، تم لوگ ریگستان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا وہاں کوئی اچھے کپڑے پہنے گھوم رہا تھا؟ نہیں، جو لوگ مَہنگے اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں، وہ لوگ محلوں میں رہتے ہیں۔(25)
”تو تم وہاں کیا دیکھنے گئے تھے؟ ایک پیغمبر کو؟ ہاں، یحییٰ(ا.س) ایک پیغمبر ہیں۔ لیکن مَیں تم سے کہتا ہوں، وہ اسسے بڑھ کر ہیں۔(26) بہت زمانے پہلے انکے بارے میں لکھا گیا تھا: ’سنو! مَیں اپنے پیغام دینے والے کو تم سے پہلے بھیجوں گا۔ وہ تمہارا راستا تیار کرےگا۔‘[b](27) مَیں تمہیں بتاتا ہوں، دنیاوی پَیدایش کے مطابق کوئی بھی یحییٰ(ا.س) سے زیادہ عظیم نہیں ہے۔ لیکن جو انسان الله تعالى کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا ہے وہ یحییٰ(ا.س) کی عظیم پَیدایش سے زیادہ عظیم ہے۔“[c](28) جب لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کی اِس بات کو سنا، اُن سب نے یہی کہا، ”بےشک الله تعالى انصافپرور ہے۔“ یہاں تک کی رومی فوج میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی یہ بات صحیح لگی۔ یہ وہ لوگ تھے کی جن کو یحییٰ(ا.س) نے غسل دیا تھا۔(29) لیکن فریسی مذہبی رہنما اور جو لوگ موسیٰ(ا.س) کے قانون کے عالِم تھے اُن لوگوں نے الله تعالى کی اِس بات سے انکار کر دیا، کیونکہ اُنہوں نے یحییٰ(ا.س) سے غسل لینے سے منع کر دیا تھا۔(30)