بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
کھوئے ہوئے بیٹے کی مثال
انجیل : لوکاس 15:11-32
عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔(11) چھوٹے بیٹے نے اپنے والد سے کہا، ’جائداد میں سے مجھے میرا حصہ دے دیجئے۔‘ تو انکے والد نے جائداد کے دو حصے کر کے اپنے دونوں بیٹوں میں برابر بانٹ دیئے۔(12) چھوٹا بیٹا اپنا حصہ لے کر وہاں سے چلا گیا۔ وہ بہت دُور کسی دوسرے ملک میں جا کر بس گیا۔ وہاں اسنے اپنے پیسوں کو عیاشی میں اڑا دیا۔(13) اُس کے پاس جو بھی تھا وہ اسنے خرچ کر دیا۔ وہاں پر بارش نہ ہونے کی وجہ سے سکھا پڑا اور پورے ملک میں کھانے کا آکال پڑ گیا۔ چھوٹے بیٹے کو بھوک لگی تھی اور اسکو پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔(14) اسکو وہاں کے ایک آدمی کے یہاں کام مل گیا۔ اُس آدمی نے اسکو میدان میں سوروں کو کھانا کھلانے بھیجا۔(15) اسکو اِتنی زیادہ بھوک لگی تھی کی اُسکا سوروں کا کھانا کھانے کا دل کر رہا تھا۔(16) جب اُس بیٹے کو احساس ہوا کے وہ کتنا بڑا بےوقوف ہے، تب اسنے سوچا، ’میرے والد کے نوکروں کے پاس بہت کھانا ہے، لیکن مَیں یہاں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔(17) مَیں یہاں سے اپنے والد کے پاس چلا جاؤں گا۔ مَیں انسے کہوں گا: ابّا جان، مینے آپ کے اور الله تعالى کے خلاف گناه کیا ہے۔(18) مَیں اِس لائق نہیں کی آپ مجھے اپنا بیٹا کہیں اِس لئے آپ مجھے اپنے نوکر کی طرح سمجھئے۔‘(19) تو اُس بیٹے نے وہ جگہ چھوڑی اور اپنے والد سے ملنے نکل پڑا۔
”اپنے بیٹے کو والد نے دُور سے ہی آتا دیکھ لیا۔ اُنہیں اُس پر بہت ترس آیا۔ وہ اُس سے ملنے کے لئے دوڑ کر پہنچے اور اسکو گلے لگا کر پیار کیا۔(20) بیٹے نے کہا، ’ابّا جان، مینے آپ کے اور الله تعالى کے خلاف گناه کیا ہے، مَیں اِس لائق نہیں کی آپ کا بیٹا کہلاؤں۔‘(21) لیکن اُس کے والد نے اپنے نوکروں سے کہا، ’جلدی کرو! اسکو سب سے بہترین کپڑے لا کر پہناؤ۔ اِس کی انگلی میں ایک انگوٹھی پہناؤ اور پیروں میں جوتے۔(22) اور سب سے موٹے بچھڑے کو ذبح کرو تاکی ہم لوگ دعوت کریں اور جشن منع سکیں!(23) میرا بیٹا مر چکا تھا، لیکن اب وہ پھر سے زندہ ہو گیا ہے! وہ کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہے!‘ اور وہ سب خوشی منانے لگے۔(24)
”اُس وقت بڑا بیٹا کھیت میں ہی تھا۔ جب وہ گھر کے قریب پہنچا، تو اسنے گھر سے ناچ-گانے کی آوازیں آتی سنیں۔(25) اسنے اپنے ایک نوکر کو بُلا کر پوچھا، ’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘(26) اُس نوکر نے بتایا، ’آپ کا بھائی لوٹ آیا ہے۔ آپ کے والد نے موٹے بچھڑے کو دعوت کے لئے ذبح کیا ہے کیونکہ آپ کا بھائی صحیح سلامت گھر لوٹ آیا ہے!‘(27) بڑے بیٹے کو یہ سب سن کر غصہ آ گیا اور وہ اُس دعوت میں نہیں گیا۔ تو اُس کے والد باہر آ کر اُس کو اندر چلنے کے لئے منانے لگے۔(28) اُس بیٹے نے اپنے والد سے کہا، ’مَیں کتنے سالوں سے غلاموں کی طرح آپکی خدمت کر رہا ہوں؟ مینے ہمیشہ آپ کا حکم مانا ہے، لیکن آپ نے کبھی میرے لئے جوان بکرے کو بھی ذبح نہیں کیا تاکی مَیں اپنے دوستوں کو دعوت دے سکوں۔(29) لیکن آپ کا دوسرا بیٹا جو آپکی ساری دولت کو عیاشی میں اڑا دیتا ہے اور وہ جب گھر واپس آتا ہے تو آپ اُس کے لئے موٹے-تازے بچھڑے کو ذبح کرتے ہیں!‘(30)
”اُس کے والد نے جواب دیا، ’میرے بیٹے، تم ہمیشہ میرے پاس تھے اور جو بھی میرے پاس ہے وہ تمہارا ہے۔(31) ہم کو خوشی منانی چاہئے کی تمہارا بھائی جو مر چکا تھا، اب زندہ ہو گیا ہے۔ وہ کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہے۔‘“(32)