بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
خوابوں کی تعبیر
توریت : خلقت 40:1-23، 41:9، 12-27، 33-40، 46-47، 49، 55-57
40:1-23
بادشاہ کو رس پلانے والے اور روٹی پکانے والے خاص نوکروں نے ناراض کر دیا تھا۔(1) فرعون اپنے اِن کام کرنے والوں سے اِتنا ناراض ہوا کی(2) ان کو اُسی جیل میں قید کروا دیا جہاں یوسف(ا.س) قید تھے۔ اِن دونوں نوکروں کو جیل کے سردار کے حوالے کر دیا۔(3) سردار نے اُن دونوں کی ذمہ داری یوسف(ا.س) کو دی، اور اُنہوں نے انکی دیکھ-ریکھ کری۔ کچھ دنوں جیل میں رہنے کے بعد،(4) اُن دونوں نے ایک-ایک خواب دیکھا جنکے الگ-الگ مطلب تھے۔(5)
جب یوسف(ا.س) دوسرے دن انکے پاس گئے تو دیکھا کی وہ دونوں بہت افسوس میں ہیں۔(6) تو اُنہوں نے بادشاہ کے اُن خاص نوکروں سے پوچھا، ”تم آج اِتنے پریشان کیوں نظر آ رہے ہو؟“(7)
اُنہوں نے جواب دیا، ”ہم دونوں نے خواب دیکھا ہے، لیکن ایسا کوئی بھی نہیں جو ہمیں ان کی تعبیر بتا سکے۔“
تب یوسف(ا.س) نے انسے کہا، ”کیا الله تعالى خواب کی تعبیر نہیں جانتا؟ مجھے اپنا خواب بتاؤ۔“(8)
تو رس پلانے والے نے یوسف(ا.س) کو اپنا خواب سنایا۔ اسنے کہا، ”مینے اپنے خواب میں دیکھا کی میرے سامنے انگور کی ایک بیل ہے،(9) اور اُس میں تین ٹہنیاں ہیں۔ جیسے ہی اُس پر بور لگا، پھول کھل گئے اور وہ جمع ہو کر ایک انگور کے پکے ہوئے گچچھوں میں بدل گئے۔(10) فرعون کی رس پیالی میرے ہاتھ میں ہی تھی۔ مینے اُن انگوروں کو توڑا اور اُس کے رس کی پیالی میں نچوڑ کر انکے ہاتھ میں پکڑا دیا۔“(11)
یوسف(ا.س) نے جواب دیا، ”اِس خواب کا مطلب یہ ہے: تین ٹہنیاں مطلب تین دن ہیں۔(12) تین دنوں کے اندر فرعون تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں واپس وہی نوکری دے دےگا اور تم اُسی طرح سے فرعون کو رس کی پیالی پکڑآؤگے جس طرح سے تم پہلے دیتے تھے۔(13) جب تمہارے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے، تو مجھے بھی یاد رکھنا اور تھوڑی مہربانی مجھ پر بھی کرنا؛ میرے بارے میں فرعون کو بتانا تاکی مَیں جیل سے رِہا ہو سکوں۔(14) مجھے زبردستی کر کے عبرانیوں کی زمین سے لایا گیا ہے اور مینے ایسا کچھ بھی نہیں کیا کی مجھے یہاں اِس کال-کوٹھری میں قید کیا جائے۔“(15)
جب روٹی پکانے والے نے دیکھا کی یوسف(ا.س) نے خواب کی اچھی تعبیر بیان کری ہے تو وہ بھی انسے بولا، ”مینے بھی ایک خواب دیکھا ہے: مینے اپنے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکریوں کو اُٹھا رکھا ہے۔(16) سب سے اوپر والی ٹوکری میں فرعون کے لئے کئی طرح کی سکی ہوئی چیزیں ہیں، لیکن چڑیاں اُس میں سے کھا رہی ہیں۔“(17)
یوسف(ا.س) نے کہا کی تمہارے خواب کا یہ مطلب ہے، ”تین ٹوکریوں کا مطلب تین دن ہیں۔(18) تین دنوں کے اندر فرعون تمکو سزا دےگا اور ایک کھمبے پر تمہارا جسم چڑھا دےگا اور چڑیاں تمہارے جسم سے گوشت نوچ کر کھائیں گی۔“(19)
تیسرے دن فرعون کی سالگرہ تھی تو اسنے اپنے سارے ملازموں کو دعوت پر بُلایا تھا۔ اسنے اُن سب لوگوں کی موجودگی میں دونوں کو جیل سے نکلوایا:(20) اور رس پلانے والے کو اُس کی نوکری پر واپس لگا دیا تاکی وہ پھر سے فرعون کو رس کی پیالی پکڑا سکے،(21) لیکن اسنے روٹی پکانے والے کو موت کی سزا دی، جیسا کی یوسف(ا.س) نے اپنی تعبیر میں کہا تھا۔(22) رس پلانے والے کے دماغ سے یوسف(ا.س) کی بات نکل گئی اور وہ اُن کو بھول گیا۔(23)
41:9، 12-27، 33-40، 46-47، 49، 55-57
[جب پورے دو سال بیت چکے تھے،] تب انگور کا رس پلانے والے نوکر کو یوسف(ا.س) کی یاد آئی اور اسنے فرعون سے کہا، ”مجھے یاد ہے کی میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔(9) جیل میں ہمارے ساتھ ایک نوجوان عبرانی آدمی تھا۔ وہ فوج کے سردار کا نوکر تھا اور جب ہم نے اُسے اپنے خواب بتائے تو اسنے ہمیں اُن دونوں خوابوں کی تعبیر بیان کری۔(12) وہتعبیر ایسی تھی کی جو بھی اسنے کہا تھا وہ سچ ہو گیا۔ اسنے کہا تھا، مَیں آزاد ہو جاؤں گا اور مجھے میری پرانی نوکری واپس مل جائےگی اور وہی ہوا۔ اسنے یہ بھی کہا تھا کی روٹی پکانے والا مارا جائےگا اور وہی ہوا۔“(13) تو فرعون نے یوسف(ا.س) کو جیل سے بلوا بھیجا اور پہرےداروں نے یوسف(ا.س) کو جلدی سے رِہا کیا۔ قید خانے سے رِہا ہونے کے بعد وہ تیار ہوئے اور بادشاہ کے سامنے پہنچے۔(14)
مصر کے فرعون نے یوسف(ا.س) سے کہا، ”مینے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر کسی کے پاس نہیں۔ مینے سنا ہے کی اگر تمہیں کوئی اپنا خواب سنائے تو تم اُس کی تعبیر بتا دیتے ہو۔“(15)
یوسف(ا.س) نے کہا، ”مَیں ایسا نہیں کر سکتا، صرف الله تعالى ہی فرعون کے خوابوں کی تعبیر جانتا ہے۔“(16)
تب فرعون نے یوسف(ا.س) سے کہا، ”مَیں اپنے خواب میں نیل ندی کے کنارے کھڑا تھا۔(17) سات موٹی تازی گائے ندی سے باہر نکلیں اور وہاں کھڑی ہو کر گھاس کھانے لگیں۔(18) تبھی مینے سات اور گائے دیکھیں جو ندی سے باہر نکلیں، لیکن یہ گائے بہت کمزور اور بیمار لگ رہی تھیں۔ یہ ایسی بُری گائے تھیں کی مینے آج تک مصر میں کبھی نہیں دیکھیں۔(19) بیمار کمزور گایوں نے موٹی تازی گایوں کو کھا لیا، لیکن وہ ابھی بھی بیمار اور کمزور ہی دکھ رہی تھیں۔ آپ اُن کو دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتے تھے کی اُنہوں نے موٹی گایوں کو کھا لیا ہے۔(20) وہابھی بھی پہلے کی طرح ہی بیمار اور کمزور ہی دکھ رہی تھیں۔ اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔(21)
”دوسرے خواب میں مینے دیکھا کی گیہوں کی سات بالیاں ایک ہی پودے پر اُگ رہی ہیں۔ وہ بہت صحت مند دکھ رہی تھیں اور اُن میں خوب اناج بھرا ہوا تھا۔(22) اُس کے بعد سات اور گیہوں کی بالیاں اوگیں، لیکن یہ بہت پتلی اور گرم ہَوا سے سکوڑی ہوئی دکھ رہی تھیں۔(23) تب سات پتلی بالیوں نے سات اچھی گیہوں کی بالیوں کو کھا لیا۔ مینے یہ خواب اپنے جادوگروں کو بتایا۔ لیکن کوئی بھی اُس خواب کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اِن خوابوں کا کیا مطلب ہے؟“(24)
تب یوسف(ا.س) نے فرعون کو بتایا، ”دونوں خوابوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ الله تعالى آپکو بتا رہا ہے کی کیا ہونے والا ہے۔(25) سات اچھی گائے اور سات اچھی گیہوں کی بالیاں، اچھے سات سال ہیں۔(26) سات دبلی کمزور اور بیمار دکھنے والی گائے اور سات خراب گیہوں کی بالیوں کا مطلب ہے سات سال سوکھے کا قہر۔ یہ سات قہر کے سال اچھے سات سالوں کے بعد آئیں گے۔(27)
”اِس لئے آپکو ایک ذہین اور عقلمند آدمی کو چن کر مصر کے کام کی ذمہ داری دینی چاہئے(33) اور کچھ آدمیوں کو چن کر لوگوں سے اناج جمع کروانا چاہئے۔ اچھے سات سالوں میں لوگوں کو اپنی پیداوار کا پانچواں حصہ حکومت کو دینا ہوگا۔(34) اِس طرح سے یہ لوگ اناج کو شہروں میں جمع کرتے رہیں گے، جب تک ضرورت پوری نہ ہو جائے۔ یہ جمع کیا ہوا اناج آپ کے قبضے میں ہوگا(35) اور بھوک مری کے سات سالوں میں پورے مصر کو کھانا ملےگا اور وہ اِس تباہی سے بچ جائےگا۔“(36) یہ خیال فرعون کو بہت پسند آیا اور اُس کے سرکاری افسر بھی راضی ہو گئے۔(37)
تب فرعون نے اُن لوگوں سے کہا، ”مجھے نہیں لگتا کی یوسف سے بہتر اِس کام کو کوئی کر سکتا ہے، اسکے پاس الله تعالى کی ہدایت ہے جو اُن کو عقلمند بناتی ہے۔“(38)
فرعون نے یوسف(ا.س) سے کہا، ”آپ کو یہ سب الله تعالى نے دکھایا ہے تو اِس لئے آپ اِس کام کے لئے سب سے زیادہ بہتر ہیں۔(39) مَیں آپکو اپنے ملک کی ذمہ داری دیتا ہوں اور لوگ آپ کا حکم مانیں گے اور صرف مَیں ہی عہدے میں آپ سے زیادہ طاقتور ہوں گا۔“(40)
یوسف(ا.س) کی عمر تیس سال تھی جب اُنہوں نے مصر کے بادشاہ کی خدمت شروع کی۔ اُنہوں نے پورے ملک کا سفر کیا۔(46) سات اچھے سالوں میں بہت اچھی فصلیں پیدا ہوئیں۔(47) یوسف(ا.س) نے اِتنا اناج جمع کر لیا کی جیسے سمندر میں ریت ہوتی ہے اور وہ اِتنا زیادہ تھا کی تولہ بھی نہ جا سکے۔(49)
جب آکال کی شروعات ہوئی تو لوگوں نے فرعون سے اناج کے لئے گوہار لگائی۔ فرعون نے لوگوں سے کہا، ”جاؤ اور یوسف سے پوچھو کی کیا کرنا ہے۔“(55) ہر طرف آکال پڑا تھا تو یوسف(ا.س) نے گودام سے اناج نکال کر مصر کے لوگوں کو بیچا۔ آکال صرف مصر میں ہی نہیں(56) بلکہ ہر طرف پڑا تھا، جس کی وجہ سے آس-پاس کے ملک سے لوگ یوسف(ا.س) سے اناج خریدنے آتے تھے۔(57)